قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
حاضر ی سے پہلے شیخ ’’حَدَّ‘‘ کا تلفظ فر ما چکے تھے اور میر ی سا معہ نے صر ف ’’ثنا‘‘ کا لفظ سنا، تو میں بھی احتیا ط نقل کے پیش نظر’’ثنا‘‘ کا لفظ استعمال کر تا ہو ں ۔ بہر حال دوسرا وصف ِمستحسن جس کا حدیث مذکور میں ذکرہے ،وہ ہے ’’صدقِ حدیث‘‘ یعنی با ت کی سچائی!اوربات کی سچائی یہ ہے کہ جولفظ منہ سے نکلے،وہ تُلا ہوا نکلے، وہ سوفیصدصحیح ہو ،اس میں اتنا مبا لغہ نہ ہو کہ وہ جھو ٹ کی سر حدوں کو چھو رہا ہو اور اتنا احتیا ط نہ ہو کہ حقیقت کو چھپا نے کی کوشش ہور ہی ہو اور ہروقت یہ خیا ل رہے کہ رب کائنات کے یہاں میرا ہر بول ، ہر لفظ،ہر کلمہ ، ہر مجلس ریکارڈ ہو رہی ہے جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے’’مَایَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إلاَّلَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدْ‘‘کا استحضار ہو، اللہ ہم کو وصف ِامانت کے سا تھ ساتھ وصف ِصدق گوئی سے بھی متصف فر ما ئے۔ ززززززززززززززز(۳)…حسن خلیقۃ:خوش اخلاقی۔ تیسر ا وصف،جو اس حدیث پاک میں بیان فر مایاگیاہے،وہ ہے خوش اخلاقی۔ ایک روایت رسول پرنورصلی اللہ علیہ وسلم سے منقو ل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یاکہ’’ مو من خو ش اخلاقی کا بر تائو کر تا ہے ، ہر قسم کی بدسلو کی اور بد زبا نی سے احتیا ط کر تا ہے‘‘ اب دو چیز یں اس مقا م پرقابل توجہ ہیں :(۱)خوش اخلاقی کیاچیزہے ؟(۲) خوش اخلاقی پیدا کر نے کا طریقہ کیا ہے؟ اولاً خوش خلقی کی اہمیت کااندازہ لگایئے ! ہما رے اکا بر ین میں سے حضرت شا ہ وصی اللہ صاحبؒ فتح پوری(الٰہ آبادی) کاار شا د ہے کہ اس دور میں اسلا م کا تعا رف ہمارے اخلا ق و کر دار ہی سے ممکن ہے۔ نہا یت ہی افسو س کے ساتھ اس کا اظہار کرنا پڑ تا ہے کہ ہم سے جس طر ح دین