قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
لاتے اور مغرب تک قیام فرماکر طلباء کی تعلیمی اورتربیتی نگرانی فرماتے۔قضاوقدرکافیصلہ: رزق جس کا جہاں جس طرح مقدر ہوتا ہے آدمی پہنچ کر رہتاہے، چناں چہ حضر ت منوبریؒ ۱۹۷۱ء میں برطانیہ کے ایک مشہور مقام’’بلیک برن ‘‘ خدمت ِدین کے ارادے سے ہجرت فرماکر تشریف لے گئے، اور وہاں پہنچ کر امامت ، تدریس اور خطا بت کواپنادائرۂ خدمت بنایا،اثباتِ توحیدآپ کاموضوعِ خاص تھا، خلا ف توحید و عمل پر آپ غضبناک حد تک ناراض ہوجاتے تھے،جو آپ کی جرأ تِ ایمانی اور غیرتِ ایمانی پرغماز ہے، آپ کے برادرِکبیر،مہتمم دارالعلوم کنتھاریہ کی وفات حسرت آیا ت پر دارالعلوم کو ضرور ت محسوس ہوئی ایک ایسے فکر مند، خدا ترس ، صفت ِتوکل، درویش صفت انسان کی جو اس عظیم ادارے کی باغ بانی اور سربراہی کر سکے، چناں چہ اربابِ شوریٰ، حضراتِ اسا تذ ہ کرام کی چاہت وطلب پر دینی ضرورت کے پیش ِنظر۱۹۷۹ء میں ہندوستان تشریف لائے اور تاحیات تقریبا ۳۶؍سال اپنے خونِ دل سے ادارے کی آبیاری فرمائی۔تغمدہ اللہ برحمۃ واسعۃ اس ۳۶؍سالہ دورِ اہتمام میں دارالعلوم کنتھاریہ نے تعلیمی، تربیتی، خانقاہی، نشر واشاعت اور ہر شعبہ میں نمایاں ترقی کی ہے، جس کے حسین، جمیل ولذیذ تذکرے کے بغیردارالعلوم کنتھاریہ کی تاریخ نامکمل رہے گی، یہاں اس وقت ہم مشت نمونہ از خروار ے کے طورپراتناضرورذکرکرتے ہیں کہ دارالعلوم کنتھاریہ میں توسیع مسجد،دو دارالقرآن، دارالمدرسین،شعبۂ افتاء کاقیام شعبۂ نشرواشاعت کااستحکام،جامعۃ الصالحا ت منوبر کا وسیع نظام، شعبۂ محاسبی کا انضباط، شعبۂ مکاتب کی توسیع شعبۂ مبلغین کا آغاز، تعداد طلباء میں اضافہ، خانقاہی نظام کاآغازاوراس کافروغ یہ سب حضرت مرحوم کے وہ حسین اور تاریخی کارنامے ہیں جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔