قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
{…وہ کیا گئے کہ چار سو منظر اداس ہے …} حضرت مولانا سیدذوالفقارصاحب ؒ فلاحِ دارین سے سعادت دارین تک (ایک انفعالی تحریر جس میں بہت کچھ ہے) خدائے ذوالجلال والاکرام، پروردگارِعالم کا یہ دستورِقدرت ہے کہ اس سفرِ ہستی پر کسی کا آنا ہے اور کسی کا جانا ، زندگی کا ہر لمحہ اور ہر پل ہم کو یہی درس دیتا ہے کہ یہ دنیا آنی جانی اور اس کی ہر شی فانی ہے؛ باقی ذات اللہ کی ہے’’کل من علیہافانoویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘(الرحمن۲۶/۲۷)لیکن کچھ قدسی صفات اشخاص اس دھر تی پر اللہ نے اپنی قدرت سے ایسے پیدا فرمائے ہیں کہ ان کے جانے پر کوئی ایک گھرانہ یا خاندان نہیں ، بل کہ علاقہ در علاقہ اور شہر در شہر، سوگ وار ہوجاتا ہے اور ہر طرف صف ِماتم بچھ جاتی ہے اور سب لوگ اس حادثہ کو اپنا ذاتی حادثہ قرار دے کر سراپا مغموم ومحزون ہو جاتے ہیں ، ان قدسی صفات مردم سازمگرگمنام شخصیات میں سے ایک عظیم عبقری شخصیت،جسے قلم آج رحمۃاللہ علیہ لکھنے پر مجبور ہے، میرے استاذِ محترم بل کہ استاذ الاساتذہ شیخِ فلاحِ دارین، مربی ٔکامل، سراپا اخلاص وعمل، وقارِسادات، حضرت مولانا ذوالفقار صاحب نور اللہ مرقدہٗ کی ذاتِ گرامی ہے، جو مؤرخہ ۱۹؍ ربیع الثانی، مطابق ۵؍ اپریل،بروز پیر،بوقت ِ ظہر ۲؍ بجکر ۴۵ منٹ پر اپنی جان،جاں آفریں کو سپرد کر کے ابدی اور دائمی طورپرآسودۂ خوا ب ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون عقل حیران،فکرپریشان ہے کہ تعزیت وتسلی کے کلمات اورمرحوم کے حسن ِکردار و حسن ِاخلاق کے انمٹ نقوش لکھوں توکس کے لیے؟فرزندگان اورپسماندگان کے لیے یا علمی برادری بالخصوص فلاحی برادری کے ان تلامذۂ باصفا کے لیے،جنھیں اس چشمہ ٔصافی