قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
جاسکے ،یعنی اس سے مرادوہ بیان ہے جودلوں کو گرمائے،کسی بات کوواضح کرے ،کسی امر کایقین دلانے یاترغیب دینے یا سامعین کوکسی خاص عمل یاروش پہ آمادہ کرنے میں مدددے۔(۳) خطابت کب شروع ہوئی؟ اس سلسلہ میں خطابت کے اولین کلام کو مؤرخین نے اہل یونان کے سرباندھا ، ارسطونے سب سے ـپہلے خطابت کے اصول وضوابط تحریر کئے اور اس کانام الخطابۃ رکھا جس کی تلخیص علامہ ابن رشد نے’’تلخیص الخطابۃ‘‘ کے نام سے کی ہے ،پھر اس سے حکمائے اسلام مثلافارابی اور ابن سیناوغیرہ نے مضامین حاصل کئے ،اہل یونان کے بعد اہل روم کاذکرآتاہے،ان کے بعدعربوں کی خطابت کاتذکرہ کیاجاتاہے،لیکن صدا قت وہ ہے جس کوشورش کاشمیری نے تحریرکیاہے کہ انسان نے جب بولناشروع کیاتب ہی سے خطابت کی ابتدا ہے، انسان اورخطابت دونوں ہم عمر ہیں ، دونوں کا ارتقائی سفر یکساں ہے،اورتحریرسے کہیں زیادہ تقریرکی عمرہے،دونوں میں صدیوں کا فاصلہ ہے ، پہلے خطیب خداکے پیغمبرتھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فلاح کے لئے مبعوث کیا تمام خدائی کتابوں کاسرآہاخطیبانہ ہے ، ان کے لب ولہجہ میں ایک خطیب کی گونج وگرج ہے ،یہی وجہ ہے کہ عربوں میں خطابت کاملکہ شروع ہی سے ہے، اوروہ اپنے بچوں کی بچپن ہی سے اس طرح تربیت کرتے تھے کہ خطابت کے لوازم واشکال ملحوظ رکھتے، مثلا یہ کہ بیان دلکش ہو،سحر بیانی قائم رہے ،الفاظ بوجھل نہ ہوں ،سلیس اورخوبصورت ہوں ، صاف لہجہ ہو،کھلی باتیں ہوں ،ہم وزن مسجع جملے اور سریع الفہم ضرب الامثال ہوں ، ہر خطبہ ایجاز واختصار کے ساتھ جامع ومانع ہو۔