قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
اب آخر میں دوسرے سوال کاجواب بطورخلاصہ پیش کردیا جاتاہے کہ عقائد میں جواختلاف پایا جاتا ہے، اس میں ہرشخص اتباع حق کو اپنا مقصدبنائے،اوردنیوی اغراض سے مکمل اجتناب کرے ، اپنی بات پرجمے رہنے کے لیے قرآن وسنت کی غلط سلط تاویل نہ کرے،نیزاحقاق حق اورابطال باطل کے لیے دلائل قائم کرنے میں نرمی اختیارکرے اورمناظروں سے حتی الامکان پرہیز کرے۔ اللّٰہُمَّ اَرِنَاالْحَقَّ حَقًّاوَارْزُقْنَااتِّبَاعَہٗ وَاَرِنَاالْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَااجْتِنَابَہٗ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سوال(۳) یہ ہے کہ جس فکر یاعقیدہ کو کوئی شخص گمراہی سمجھتاہو مگراس کی وجہ سے تکفیرکاقائل نہ ہو،اورجس فکرکے بارے کوئی شخص تکفیر کاقائل ہو،ان دونوں فکروں پر تنقیدکرنے میں شرعی لحاظ سے کوئی فرق ہے؟اوراس پرتنقیدکے حدود وآداب کیاہیں ؟جواب یہ ہے کہ اگرکوئی شخص کسی فکر یاعقیدے کوگمراہی یاکفرسمجھتاہو تواس کے لیے اس فکریاعقیدے کے گمراہی یاکفرہونے کو واضح کرنے کا نہ صرف یہ کہ اختیارہے بل کہ ارشادنبوی ؐ ’’من رأی منکم منکرا۔۔۔الخ‘‘کی بناء پر اس پرلازم ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے۔ اوریہ بات مسلم ہے کہ منکر جس طرح کا ہو اس پرنکیربھی اسی انداز سے کی جاتی ہے یعنی اگرمنکر خفیف درجہ کا ہوتونکیربھی خفیف ہوتی ہے، یعنی نرمی سے ہوتی ہے اور اگر منکر شدیددرجہ کا ہوتواس پرنکیربھی شدیدہوتی ہے،اس لیے جس فکریاعقیدے کوکوئی شخص صرف گمراہی سمجھتاہو اوراس کی وجہ سے تکفیرکاقائل نہ ہواورجس فکریاعقیدے کو کفر سمجھتاہودونوں پرتنقیدکرنے میں فرق توہوگا مگرچوں کہ یہ دونوں ہی باتیں شدیدترقبیح