قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
سے سیرابی کا شرف حاصل ہوا ہے ؛ یا بذات خود اپنے آپ کے لیے لکھوں ، خود کو تسلی دوں کہ ہرایک،ایک دوسرے کو سوگوارمحسوس کر رہاہے اورہر ایک کے قلب ِحزیں سے آواز سنائی دے رہی ہے کہ ؎ آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل بہر حال ہماری شریعت مطہر ہ نے ہمیں ہر مرحلہ پر تعلیم دی ہے کہ غمناکی، المنا کی ابتلاء وآزمائش کا مرحلہ ہو تو اسے کیسے انگیز کیا جائے؟ اور فرحت وانبساط کا موقع ہوتو اسے کیسے اڈجسٹ کیا جائے؟ بہادر شاہ ظفرنے مزاجِ شریعت کی کیسی سچی عکاسی کی ہے کہ ؎ ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا ہو وہ کتنا ہی صاحب فہم و ذ کاء جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہاحضرت الاستاذصاحب رحمۃ اللہ علیہ: ہماری ناقص معلومات کے مطابق جھانسی، گوالیار کے مضافات میں ایک سادات کے خاندان میں آپ نے آنکھیں کھولیں ، حضر ت کے والد حاجی مختار صاحبؒ دیندار، ملنسار، علم دوست، علم پرور شخص تھے؛ جن کا یومیہ ایک قرآن شریف سے زیادہ تلاوت کرنے کا معمول تھا، انہوں نے حضرت کو گھریلو ابتدائی ضروری تربیت اور دینی و عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد ،باوجوداس کے کہ علاقائی ماحول میں عصری تعلیم کارجحان پایاجاتاتھا،مگرگھریلوماحول میں دینی رجحان غالب تھا تومالک ِقضاء وقدرنے اپنے مستحکم نظام کے تحت حضرت حاجی مختارصاحبؒ کوایک دوست کے ساتھ آستانۂ حضر ت مدنی پرپہونچادیا،ملاقات پرعلیک سلیک کے بعدصاحبزادگان کے نام دریافت فرماکر کہنے لگے کہ ذوالفقارکو میرے پاس بھیج دو،والدصاحب نے حامی بھرلی،پہونچانے