قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
{…ایک پکاموحد؛توحیدکاعلم بردارچل بسا…} مولانا محمداسماعیل صاحب منوبریؒ مہتمم دارالعلوم کنتھاریہ کی حیات کے چند اوراق بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ دنیا آنی جانی ہے ،باقی صرف اللہ کی شانِ عالی ہے ،جیسا کہ قرآنِ مقدس نا طق ہے ’’کل من علیھافانoویبقٰی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘(الرحمن۲۶/۲۷)اس دنیا میں جو آیا،جب آیا،جیسے آیا،جس شان سے نشوو نماپائی، ذرہ سے آفتاب،عام سے خاص،مامور سے امیر،مدرس سے منتظم بنا حتی کہ بادشاہت تک پہنچا،لیکن آخر کار انجا م ، حالت ِنز ع ، مو ت تجہیز،تکفین ،قبر کی مٹی اور پیوند ِخاک کے علاوہ کچھ بھی نہیں ،یہ دستورِ دنیا نہیں بل کہ سنت اللہ ہے ،ہاں مگرجس کی زندگی کامقصد رضائے الٰہی کا حصول،ہر کام میں منشائِ خداوندی کی تلاش،تقربِ باری کاشوق اوربھرپورخلوص وللّٰہیت ہووہ اپنے عمل و کردار،مستحکم ایما ن وعقائداوراپنے وہ اعمال جو صدقہ ٔ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں ایسے اوصاف کے حاملین اشخاص مرنے کے بعد بھی لطف ِ زندگی حاصل کرتے ہیں ،قرآن نے ایسے ہی با صفا افرا د کے سلسلہ میں کہاہے ’’ولاتقولوالمن یقتل فی سبیل اللہ اموا ت‘‘ ہمارے مرحوم ومغفور جامعہ اکل کوا کے محسن وہمدرد، گجرات کی کثیر الخدمات، دینی دانش گاہ کے سربراہ،دارالعلوم کنتھاریہ کے مہتمم،حامل ِشریعت،جرأتِ ایمانی،غیرتِ د ینی کے حسین امتزاج کے حامل’’ اشداء علی الکفاررحماء بینہم‘‘(الفتح۲۹)کا پرتو، توحید جن کے رگ وریشہ میں پیوست، آیاتِ توحید تو گویاقابل ِرشک انداز سے آپ کے وردِ زباں ، بل کہ’’ قال‘‘ سے ترقی کرکے’’ حال ‘‘کی حد تک ازبر، ایسی ہستی جن کو برکت العصر سے تعبیر کیا جانا چاہئے، مؤرخہ۱۶ محرم الحرام ۱۴۳۶ھ مطابق ۱۰؍ نومبر بروز پیر ظہر و عصر کے درمیان اس دنیا سے چل بسے ،انا للّٰہ واناالیہ راجعون(البقرہ۱۵۶)۔