قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ہو ں گی یاان کااپنا اجتہا دما ناجا ئے گا، یا یہ کہ حضرت عا ئشہ ؓ واقعہ معر ا ج کے مو قع پریاتو نو مو لو د تھیں یا پید ا بھی نہ ہو ئی تھیں ، بہر حا ل اتنی با ت تو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ز و جیت میں نہ تھیں اور رہا حضرت معا ویہ ؓ کا معا ملہ تو ا س وقت تک آپ مشر ف با سلا م ہی نہ ہوئے تھے۔ اسی لیے حضرت تھا نوی ؒ نے بیا ن القرآ ن میں حضرت عائشہ ؓ کے مقو لہ کی بڑ ی اچھی تو جیہ فر مائی کہ مافقدت جسد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہو گا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم معر ا ج سے اتنا جلد و اپس آ گئے کہ ہمیں آ پ کو تلا ش کر نے کی نو بت نہ آئی۔ صحیح با ت تو یہ ہے کہ جس اسر ا ء کا ذکر قرآ ن میں ہے اور معر ا ج کا ذکر احا دیث میں ہے اس کے سیا ق وسبا ق سے یہی معلو م ہو تا ہے کہ وہ سفر جسد مع الرو ح بیدا ری کی حا لت میں ہوا ہے ، قرآ ن پا ک کی سو رہ بنی اسرائیل کی پہلی آ یت سے ہی کئی قر ائن اس پر دا ل ہیں ۔پہلاقرینہ: ’’سبحان‘‘ وا قعہ کا آ غا ز لفظ سبحا ن سے یعنی اس حیر ت نا ک سفر کو سن کرلو گ محو حیرت اور دشمنو ں کو خو ب آ و ا ز کسنے کا مو قع ملے گا،اس کی پیش بند ی لفظ سبحا ن سے کی گئی۔دوسراقرینہ: لفظ’’ عبد‘‘ہے ، اس لفظ کا استعما ل قر آ ن کریم میں بد ن اور رو ح دونو ں کے مجموعہ پرہواہے، صر ف روح پر عبد کا استعما ل نہیں ہو ا ہے ،اس لیے لفظ عبدبھی جسما نی معرا ج پر دا ل ہے۔