قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
حاضر ہوتے اور موقع محل کے موافق، مقتضائے حال کے مطابق، مختصر مگر ایسی دل نشیں تقریر و خطاب فرماتے کہ حاضرین محسوس کرتے کہ اس وقت اس سے بہتر کوئی نصیحت اور وعظ نہیں ہو سکتا۔ ’’ جا معۃ الفلاح‘‘ اندور میں مسابقہ کی اختتامی مجلس تھی، سب اپنے اپنے تأثرات پیش فرماتے ہوئے حضرت وستانوی پر خادم القرآن کے لقب کو منطبق فرما رہے تھے؛اس وقت پہلی مرتبہ اذان کی فرع رکھی گئی تھی، تأثرات کے درمیان منتظم کو بلوا کر کہا کہ میرے لئے بھی کچھ وقت متعین کیاہے؟ہاں میں جواب ملنے پرآپ نے بیان فرمایااورفلسفۂ اذان پراندورکی عوام کے سامنے ایسا دل نشیں خطاب فرمایا کہ اس پورے خطاب کا عنوان ہی ایساتھا {…مجھ سے دیکھانہ گیا حسن کا رسوا ہونا…} اس کے علاوہ کنج کھیڑامیں ختم ِبخاری شریف کا درس آپ کی جامعیت ِ علم و فن کا غمازہے، اگر یہ تأثراتی مضمون اس کا متحمل ہوتا تو آپ کی شانِ خطابت کے کچھ یاد گار نقوش ضرور سپردِ قرطاس کئے جاتے۔ آپؒکے اس دعوتی و خطابی پہلو نے ایسی مقبولیت پائی کہ ہندوستان ہی نہیں ، بل کہ بیرونِ ہندفرانس ، موریشش،افریقہ، برطانیہ، کنیڈاوغیرہ کے لوگوں نے بھی آپ کے حسن ِتعبیر سے آراستہ اور حکمت سے لبریز خطاب سے لطف اندوز ہوکراپنی متاعِ گراں مایہ دولت ِایمان ہی کوسمجھنے کی کوشش کی اورآپ نے ’’قُلْ لَااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا‘ ‘ کی شان ِ استغناء کے ساتھ امت کی رہبری ورہنمائی میں کوئی کمی نہ ہونے دی۔حضرت الاستاذ کی گمنامی وبے نفسی: بایں ہمہ کمالات وخدمات ِجلیلہ آپ ؒنے اپنی شانِ ولایت اورمقام ِ عارفیت کو ظرافت وسادگی،بے نفسی وگمنامی میں ایساچھپایاتھاکہ اقبال مرحوم کے خرقہ پوشوں کا