قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
{…تمرین المنطق…} تصنیف:مولاناحسام الدین صاحب قاسمی حیدرآبادی استاذمدرسہ خیرالمدارس حیدرآباد حق جل مجدہ نے ایک انسان کو جن خصوصیات وانعامات سے نوازا ہے ان میں ایک نعمت، نعمت ِعلم ہے جس کی بنیاد پر وہ ذرہ سے لے کرآفتاب تک پرکمندیں ڈالنے کی کوشش کرتاہے،جہازرانی سے لے کر جہا ں بانی اورجہاں بینی سے لے کرجہاں گیری کے مقام پر جلوہ افروز ہوناچاہتاہے، پھر یہ علوم وفنون بھی مختلف ہیں ،جو اس انسان نے اپنی تنوع المزاجی کی وجہ سے مختلف حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے ،کچھ علوم عالیہ ہیں تو کچھ علوم آلیہ ، ایک عالم دین کو ان تمام علوم سے وابستگی اور دل بستگی ہی بام عروج پر پہونچاتی ہے، بہت سے فنون مدونہ ہیں تو کئی فنون با وجود فطری ہونے کے غیر مدونہ ہیں ، بچے کا فن شیر خوارگی سے واقف ہونا، دودھ کی طلب پررونا، پھر ماں کا گندی حالت میں دودھ کانہ پلانا بچے کا سیرابی کے بعد سوجانا، یہ سب اصول ہیں لیکن غیر مدونہ ہیں ، اسی طرح فن ِجاروب کشی مستقل فن ہے، لیکن اس کے اصول وضوابط غیر مدون ہیں ، خدا بھلا کرے ہمارے اسلاف علماء کا کہ انہوں نے قرآن فہمی، حدیث بیانی اور فقہ کی گہرائی و گیرائی کو سمجھنے اور سمجھا نے کے لیے بطورآلہ کے بہت سے علوم وفنون کو ایجاد کر کے امت پر احسان عظیم کیا ہے۔جزاہم اللہ عنا وعن جمیع المسلمین من جملہ فنون آلیہ عقلیہ مدونہ کے ایک اہم ترین فن جسے فطری کہا جاتا ہے وہ علم منطق ہے جو اپنی تعبیرات واصطلاحات کے اعتبار سے اگرچہ غیر لذیذ اور خشک فن محسوس ہوتا ہے؛ لیکن دنیا کے ہر انسان کے لیے شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کا ستعمال نا گزیر ہے مثلاً :ایک شخص بازار سے آم، آلو، شکر لے کر آیا ہواس سے دریافت کیا گیا کہ کیالائے ہو؟جواباً وہ کہتا ہے سامان۔ دوسرا شخص آلو، بیگن، ٹماٹر اور پودینہ لے کر آیا ہو اس سے پوچھا گیا کیا لائے ہو؟ وہ کہتا ہے ترکاری تیسرا کوئی صرف دودھ لے کر آیا ہو اس سے دریا فت کیا گیا کہ کیا لائے ہو؟ تو وہ کہتا ہے دودھ۔