قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کاآرڈرہے ،اس کاکون انکار کر سکتا ہے؟ ایک مرتبہ جامعہ حسینیہ آکولہ کے سالانہ جلسہ میں حضرت رئیس جامعہ کے ہمراہ وہاں سے سیندھواکاسفرتھا،حضر ت وستانوی دامت برکاتہم کوعارضۂ قلب پیش آیا،اس پراس قدرمتفکر بل کہ مضطرب ہوئے کہ خاندان کے ہر چھوٹے بڑے کو تاکید کی کہ ان کی زندگی بڑی قیمتی ہے، سفرپربریک لگاؤ!اور جب تک شفاء یابی کہ خبر نہ آئی،اس وقت تک خود بھی دعاء فرماتے رہے او ر اپنے متعلقین کو بھی اہتمامِ دعاء کی تلقین کرتے رہے۔ اور شفقت ومحبت کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی کوئی کیا پیمائش کرے کہ جب اپنے خون جگر سے سینچے ہوئے بیٹے ’’غلام محمد‘‘ کو ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’جب جب اللہ پاک تہجد کی توفیق دیتا ہے اور رجوع الی اللہ کی توفیق ملتی ہے تو بیٹے! ـپہلے تیرے لیے دعاء کرتا ہوں ، پھراپنے لیے‘‘۔اس ایثار و قربانی پر ہزاروں جانیں نچھاور: ایثارو قربانی آپ کی حیاتِ مبارکہ کا وہ روشن باب ہے جو پوری دنیا کے مدارس و مراکز کے لیے آئیڈیل ونمونہ ہے۔مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی دامت برکاتہم نے فلاح دارین کے تعزیتی اجلاس میں فرمایا کہ: ٭… اگرکسی سابق وقدیم استاذکی کوئی کتاب ہٹاکرآپ کونامزدکی جاتی توبڑی حکمت ِ عملی سے فرماتے کہ دل شکنی کسی کی نہ ہو، اس لیے مجھے یہ کتاب نہ دی جائے۔ ٭… کبھی اضافۂ تنخواہ یاذاتی ضرورت کااشارہ تک نہ کیا،یہ تووہ ایثارہے جس کااحسا س بہت سے حضرات کرتے ہوں گے، لیکن ایک ایسار ایثارجس کا احساس بہت کم احباب کو ہوگا کہ حضرت کا پودروی دامت برکاتہم کے کنیڈاتشریف لے جانے کے بعدآپ کے تلامذہ بل کہ تلامذہ کے تلامذہ بھی منصب ِاہتمام پرجلوہ افروزہوئے،اس پورے دورمیں