قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کہیں کوئی لفظ مقدم ہے او ر کہیں وہی لفظ مؤخر ہے اس تقدیم وتاخیر میں کیا لطیفہ ہے۔ یہ وہ علمی جواہر پارے ہیں جو کتب تفاسیر میں منتشر اور بکھرے ہوئے ہیں ان قیمتی کتابوں کوپانے کی ہر ایک عام خاص میں سکت نہیں ہے یا یہ کہ ان سے خاطرخواہ استفادے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ایسے وقت میں ضرورت تھی ایک ایسی کتاب کی جوان امہات الکتب کا خلاصہ اورنچوڑ ہو، ضرورت تھی ایک ایسی کتاب کی جو مدارس کو تفسیر کے طرز تدریس سے آشنا کر ے ضرورت تھی ایک ایسی کتاب کی جو مذکورہ قرآنی مسابقات میں مساہمین مسابقہ کی کامیابی کو یقنیی بنائے،ضرورت تھی ایک ایسی کتاب کی جس میں تفسیری نکات کوسوال و جواب کے انداز میں اٹھایا گیا ہو، ضرورت تھی ایک ایسی کتاب کی جس میں علمی تحقیق و جستجوکے ساتھ خون جگر کی آمیزش بھی ہو،ضرورت تھی ایک ایسی کتاب کی جس میں تسکین ذوق علمی کے ساتھ ساتھ دعوت عمل بھی ہو۔ الغرض ضرورت تھی ایک ایسی کتاب کی جس کا منتظر ہے ہر محقق عالم دین اور ہر کتب خانہ جو اپنی کتابوں سے علمی پیاسوں کی تشنگی کو دور کرنے کے لیے کمر بستہ ہو نیز ہر وہ طالب علم جو اپنے دامنِ مراد کو گوہرِ مقصود سے لبریز رکھنا چاہتا ہو، ہر وہ مبلغ ومقررجو قرآن حکیم کو سمجھ کر امت کی رہبری کرنا چاہتا ہو۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے جامعہ کے عظیم محدث حضرت مولانا علامہ’’ محمد رضوان الدین صاحب المعروفی‘‘کو کہ جنہوں نے ایسی ہمہ گیر ہمہ جہتی کتاب تصنیف فرمائی جو صرف نقل عبارت وتعبیرات پر حاوی نہیں بل کہ فن تفسیر کے عمیق ووسیع سمندرکی غوطہ زنی کے بعد رحمن ورحیم کے لطف وکرم کے سایہ میں ہاتھ لگی ہے وہ ’’لؤ لؤ ومرجان‘‘ ہے جو کسی کو عمرِ طویل اور جہدمسلسل کے بعد بھی بمشکل ہاتھ لگ جائے تو بساغنیمت،