قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
اس تمہیدکے بعد سنئے!ایک ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بشریت اورایک ہے آپ کی شان رسالت،یہی وجہ ہے کہ ذاتی طور پرآپ کو کسی نے تکلیف پہونچائی توآپ نے درگذر سے کام لیا،اور’’لاتثریب علیکم الیوم‘‘(یوسف۹۲) کانظریہ پیش کیا ، لیکن جہاں منصب رسالت پرانگشت نمائی کامعاملہ ہوااس میں آپ نے سزا دینے میں کوئی تأمل نہیں کیا،معلوم ہواکہ جس طرح محبت رسول اوراتباع رسول،محبت الٰہی کو مستلزم ہے اسی طرح گستاخی ٔ رسول اوراہانت پیغمبر صرف حق الرسول ہی نہیں بل کہ حق اللہ بھی ہے۔اس سلسلہ میں آیات قرآنیہ سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے : (۱) ’’ان الذین یؤذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فی الدنیا والاٰخرۃ وأعدلہم عذابامہینا،والذین یؤذون المؤمنین والمؤمنٰت بغیرمااکتسبوا فقداحتملوا بہتانا واثمامبینا‘‘(احزاب ۵۷/۵۸) ترجمہ:بے شک جواللہ اوراس کے رسول کوایذادیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان پردنیا اورآخرت میں لعنت کرتاہے اوران کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ، اور جولوگ ایمان والے مردوں اورایمان والی عورتوں کوبدون اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہواایذا پہنچاتے ہیں تووہ لوگ بہتان اورصریح گناہ کابارلیتے ہیں ۔(ترجمۂ تھانویؒ) درج بالاآیت سے ایسے شقی اور بدبخت کا صریح ملعون ہونا اور آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہونا ثابت ہوا جو اللہ اور اس کے لاڈلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاپہنچاتے ہیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلہ میں وضاحت کرتے ہوئے علامہ قرطبی فرماتے ہیں ’’أماأذیۃ رسول