قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
(۳) مقدمۃ العلم کو مختصراً مگرایساجامع پیش فرماتے جومعین ِ مقصودہوکر ،بصیرت فی الفن کاموجب بنتا۔ (۴) کسی آیت کی تفسیر،کسی حدیث کی تشریح ،یاکسی عبارت کی توضیح کرتے ہوئے بین السطو ر،حاشیہ اورشراح کے خیالات کے ساتھ ساتھ اپنی رائے اوررجحان کواس طرح بلیغ اسلوب میں پیش فرماتے کہ آپ کی رائے ورجحان راجح نظرآتا۔ (۵) آیات وروایات کی تشریحات حالات ِحاضرہ پراس طرح منطبق فرماتے گویا یہ آیت وحدیث اسی موقع ومحل کے لیے ہے۔ (۶) اگرکوئی نئی تصنیف وتالیف ،یاکوئی مضمون ورسالہ آپ کے نظرنوازہوتاتواس کا بالاستیعاب مطالعہ فرماتے اوردرس میں آکر ادنیٰ سی مناسبت سے اس کتاب یارسالہ کا ایساخلاصہ بیان فرماتے ،جوطلباء کے لیے مشعل ِراہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی سوصفحات کے مطالعہ سے مستغنی کردیتا۔ ان ساری خصوصیات وامتیازات پرحاوی ایک خاص خوبی درس کی یہ رہتی کہ آپ کے جواہرپارے اورشفقت آمیزلہجے سے نکلے ہوئے قیمتی جوہر وگوہر کودامن علم میں سمیٹتے ہوئے، کبھی کسی ادنیٰ طالب علم کوبھی اکتاہٹ یاگراں باری کااحساس نہ ہوتا ، یعنی ہرطالب علم یہ چاہتاکہ حضرت کا درس مزید طویل ہو،کبھی گھنٹہ ختم ہونے یاوقت ختم ہونے کا احساس نہ ہوتا۔حضرت الاستاذ کی شخصیت ہرایک کے لیے سراپاشفقت ورحمت تھی: کسی اللہ والے نے کہاہے کہ’’قلب مؤمن پرجب ایمان کاغلبہ ہوتاہے تو آثارِ ایمان؛تواضع وانکساری،ہمدردی وبھائی چار گی اورشفقت ومروت کی شکل میں اعضا ء انسانی سے جھلکتے ہیں ‘‘ہمارے پیارے اور بہت پیارے استاذ کی ایک ایک ادااورایک