قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
گوش گذار کرتے چلیں ،جو ہمارے مقصود ومطلوب میں مشعل ِراہ کا کام کریں ۔ (۱) سب سے پـہلاامریہ کہ ہم اپنے مقام علم کا استحضار کریں کہ اللہ نے ہم کوانبیاء کا وارث بنایا ہے ’’العلماء ورثۃ الأنبیاء‘‘(ابوداؤد) (۲) دوسراامریہ ہے کہ اللہ نے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کونبوت کاجو مرتبہ دیا ہمیں بھی وہی مرتبہ نصیب فرمایا کہ معلم کا درجہ عطافرمایا ’’انما بعثت معلما‘‘۔ (المسندالمستخرج علی صحیح الامام مسلم) (۳) زیورِ علم سے آراستہ ہونا ایک طاقت ہے،جس کے ذریعہ ہر ذرہ کو آفتاب بننے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں ’’یرفع اللہ الذین امنوا منکم والذین اوتواالعلم درجٰت‘‘ (المجادلۃ۱۱)اس کوباقی رکھنے کے لیے اورمزیدفضل ِرب حاصل کرنے کے لیے چند آدابِ معلمیت سے واقفیت ضروری ہے۔کامیاب معلم کے زرین اصول وآداب: (۱) پہلاادب:جذبۂ خلوص کے ساتھ ساتھ علم سکھانے میں طلب ِدنیااوراجرکا خوا ہا ں نہ ہو۔ (۲) استاذ کو چاہئے کہ اپنے شاگردوں پرمشفق رہے اور شاگردوں کواولا د کاساپیار دے، جس میں شفقت کے ساتھ تادیب ِشرعی کی آمیزش بھی ہو،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اور فرمان ربی کہ’’انماانالک مثل الوالدلولدہ(ابن ماجہ)ولوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوامن حولک‘‘(اٰل عمران۱۵۹)۔ (۳) استاذ کو چاہئے کہ طلباء کی خیر خواہی میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ رہے۔ (۴) استاذ کو چاہئے کہ سبق کا اہتمام کرے۔ (۵) استاذ صرف معلمی کار نامہ انجام نہ دے،بل کہ اخلاق حمیدہ کی بھی تلقین کر ے۔