قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
آغوشِ تربیت میں رہ کر اور عظیم جامعہ سے وابستہ ہوکر اپنے لمحاتِ حیات کو باوقار باعزت اور باعافیت محسوس کررہے ہیں ۔ بل کہ اگر ہم وستانوی اور وستانوی تحریک سے جدا ہو کر اپنی پیمائش کریں ، توہماری حیثیت اس صفر کی سی ہے جو بغیر عدد کے مکتوب ہو، اسی لئے یہ شعروردِ زباں کرکے استحضار شکر کرنا چاہئے کہ ؎ بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگر نہ شہر میں غالبؔ تیری آبرو کیا تھی؟ ہر نعمت کا شکر اس کے شایان شان ہونا چاہئے،جب جامعہ نے اپنی فروعات میں جگہ دے کر بہترین خدمت کے مواقع فراہم کئے ہیں ، تو رئیس جامعہ اور ذمہ دارانِ جامعہ کے منشاء کے مطابق اپنے آپ کو اُتارنا اور ان کے مزاج میں اپنے آپ کو اطاعت امیرکے جذبہ میں ڈھالنا یہی مقتضائے تشکر ہے۔منظر پس منظر: آج اور ابھی کی افتتاحی مجلس میں سب سے پہلے یہ وضاحت اور استحضار ضرور ی ہے کہ ہم سب یہاں کیوں جمع ہیں ؟ اس کا باعث اور اس کی غرض وغایت کیا ہے؟ ہوا یہ کہ جامعہ کی ششماہی تعطیلات کے فوراً بعد حضرت رئیس ِجامعہ نے عزیزم مولوی حذیفہ سلمہ کو حکم دیا کہ فروعات ِجامعہ کا ایک دورہ کرلو،چناں چہ انہوں نے تعمیل ِحکم میں مہاراشٹر کے تقریباً تمام ہی مراکز کا دورہ کیا،جس میں خوبیاں ، اچھائیاں اورمحاسن بھی سا منے آئے اور کچھ ایسے پہلو بھی جس میں مزید بہتری لانے کی ضرورت محسوس ہوئی، حضرت رئیس ِجامعہ سے مذاکرہ ہوا اس کے دوران یہ طے ہوا کہ ایک سہ روزہ تدریسی وتربیتی کیمپ لگایا جائے اور اس میں ضروری پہلو پر گفتگو اور مذاکرہ ہو، چنانچہ آج کا تربیتی کیمپ رئیس جامعہ کے اسی خواب کی تعبیر ہے،یہ تو ہوا پس منظر۔ اب یہ کہ اس انداز کے تربیتی کیمپ کے اغراض ومقاصد کیا ہوتے ہیں ؟ ہمار ے