قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کی حالت میں سفرکرانے کو مناسب نہ سمجھااورجن کی رائے گھرلے جانے کی رہی ،ان کے جذبات یہ رہے کہ اہل خانہ بیٹے ،بیٹیوں کی زیارت سے یک گونہ تقویت پاکر اسباب کے درجہ میں شفایابی ممکن ہوجائے لیکن حضرت ہی سے کبھی یہ سنا تھاکہ ع عجب تیری قدرت عجب تیراکھیل ہم توبادلِ نا خواستہ بیمار کی عیادت کا فریضہ اداکرتے ہوئے عجیب کشمش کی حالت میں واپس آئے اور حضرت محبوب حقیقی سے وصال کے تصور میں سر شارہونے لگے۔حضرت کا وصال اورمحبین میں اضطراب : فرصت پاکر دارالیتامی بھروچ میں قیام کیااور صبح حضرت مولاناعبداللہ صا حب کا پودروی کی خدمت میں پہنچے ،جہاں حضرت مولانا غلام کی زبانی حضرت کے حالات سننے کے لئے بے قرار ی تھی،حضرت کاپودروی حالات سن کربہت متفکراور مغموم ہوئے اور بار بار اپنی تشویش کا اظہار فرماتے رہے۔ سنیچر ، اتوار کے دن شدت ِمرض کی خبر سن کرکافی تشویش تھی،پیر کی صبح کو بہت امید افزاخبر آئی کہ حضرت نے تہجد ادا فرمائی اور چائے نوش فرمائی وغیرہ وغیرہ،لیکن کسے پتہ تھاکہ محدثِ عظیم کی یہ خبرِ صحت توسب کو غفلت میں ڈالنے والی ہے ،ایک طرف ملک وبیرون ملک کے شاگردوں نے اطمینان کی سانس لی تو دوسری طرف حضرت مولانا شیر علی صاحب دامت برکا تہم کا یہ جملہ کہ ’’ذوالفقار !تیرے درس کاطلباء توکیاشیر علی بھی منتظر رہے گا‘‘طلبائے فلاح دارین بالخصوص طلباء دورئہ حدیث سراپا منتظر ہیں کہ ہمارا مشفق ومربی،کل صحت یاب ہوکر ہمارے درمیان آئے گااور ہمیں اپنے علمی جواہر پارے سے نوازے گا،اسی امید وآس کے دوران آپ کی زبان مبارک سے حضرت شاہ وصی اللہ صاحب الٰہ آبادی ؒکاسنا شعر، صادق آگیا کہ ؎