قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
جامعہ اکل کوا کے رئیس وبانی سے حضرت منوبر ی کا تعلق: جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کو دار العلوم کنتھاریہ سے جدا نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ جس جامعہ کی بنیاد ۱۹۸۰ء میں ہوئی اس کے بانی حضرت وستانوی اس وقت دارالعلوم سے تدریسی وابستگی رکھتے تھے، اس لیے وہاں کی مخلص اور تجربہ کار شخصیات کے ساتھ اولین مشورہ دارالعلوم میں ہوا، حضرت وستانوی نے ظاہری طور پر الگ ہونا چاہا تو انتظامیہ نے شفقت آمیز انداز میں رخصت لے کر جانے کا مشورہ دیا،پھرجب جامعہ اپنی بے سروسامانی اور کم مائیگی کے عالم میں شروع ہوا ،اس کی ہر نوع کاتعاون حتی کہ امتحا نا ت کے موقع پر صبر آزما سفر کر کے آنا،سال میں دو ، دو مرتبہ دفترِ محاسبی کے افراد کا جانچنے کے لیے آنااورجامعہ کے دفترِ محاسبی کومستحکم ومنظم کرنا حتی کہ حضرت مولانا علی یوسف کاویؒ ،حضر ت مفتی اسماعیل بھڑکودروی،نیز حضرت مولاناایوب وسراوی دامت برکاتہم کا،رئیس جا معہ کے طویل سفر کے دوران تعلیمی جانچ کے لیے آنااور نائب رئیس جامعہ حافظ اسحاق صا حب کو مخلصانہ مشوروں سے نوازنا،نیز حضرتِ مرحوم کاباربارآکرمخلصانہ اور ہمدردانہ مشورہ دینا،اساتذہ کے ساتھ مذاکرہ کرناجامعہ کامہمان خانہ ا ورمسجدمیمنی کا سنگِ بنیاد رکھنا،یہ موصوف کے وہ احسانات ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اورہاں جا معہ میں دارالعلوم کنتھاریہ کے فضلاء کی ایک مستحکم ٹیم ہے جو نظام تعلیم میں معاون ہے اللہ پاک ان حسین کارناموں اور خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرما کر مرحوم کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے۔آخری منظر: حضرت منوبری ؒ کے انتقالِ پُرملا ل کی خبرآناً فاناً ہندوستان کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ تک پہنچ گئی،اطراف واکناف ہی نہیں دُوردَراز کے معروف وغیرمعروف اداروں کے متعلقین ومتوسلین کی ایک بڑی جماعت بالخصوص گجرات کے اداروں کے ذمہ داران،مشائخ، شیوخ الحدیث،اساتذہ ٔکرام اوردعوت