قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
{…زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے…} محی السنۃ حضرت مولاناابرارالحق صاحب ؒہردوئی کی وفات حسرت آیات پر ایک تأثراتی تحریر اس جہانِ فانی میں کس کودوام ہے اور کون یہاں باقی رہنے کے لئے آیا ہے ؟ بس رہے نام اللہ کا !یہاں تو سبھی کا وجود بساطِ عالم پر ایک چراغِ شب کی مانند ہے ، جو اپنی عمر طبیعی کی سحر ہونے تک ٹمٹماتا رہتا ہے اور پھر اپنی طبیعت سے گل ہوتا نہیں ؛ بلکہ قدرت کے ہاتھوں گل کر دیا جاتا ہے ؎ اے شمع تیری عمر طبیعی ہے رات بھر روکر اسے گذ ار یا ہنس کر گذاردے تاہم کوئی کوئی چراغ ایسا بجھتا ہے کہ اس سے اٹھنے والا دھواں اس کے سوز ِدروں کی علا مت ہو جاتا ہے اور باطنی سوز کے متوالے اپنے شوقِ جنوں کو مہمیز کرنے کی اس سے را ہ پا جاتے ہیں ۔ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ؒ ہر دوئی بھی بزم اشرف کے ایسے ہی آخری چراغ تھے،جواپنی حیات میں بساط بھرچراغِ مصطفوی بن کرشراربولہبی،رسم و روا یت، بدعات وخرافات اور جاہلیت ومداہنت کے طوفان سے نبر دآزمارہے اور رہروانِ شوق کو راہ دِکھلاتے رہے۔ آج وہ چراغ بجھ گیا ،مگر اس سے اٹھنے والا دھواں اس کے سوزِ دروں کاپتہ دیتاہے اورباطل کی ظلمتوں سے ٹکرانے والے جیالوں کودم بھرآگے ہی آگے بڑ ھتے رہنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے ؛اللہ پاک ایسے چراغ سے چراغ جلاتا رہے۔ آمین ! ۱۷؍مئی ۲۰۰۵ ء مطابق ۹؍ربیع الثانی ۱۴۲۶ ھ کی ابتدائی شب ہے،مغرب،