قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
جوش جوانی سے متاثر ہوکر غیر شائستہ ہوجاتاتو اس کی گفتگو کو نہایت تحمل اور بردباری سے سنتے اور اگر تسلیم کے قابل ہوتی تو تسلیم ورنہ تفہیم کا مناسب راستہ اختیار فرماتے،اسی حلم و بردباری کا نتیجہ کہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی لسانِ مبارک پر حکمت کے چشموں کو جاری کردیاتھاکہ کسی مجلس میں جلوہ افر وز ہوتے تو تبحر علمی اور تجربۂ جہاں گردی کی روشنی میں وقتی ضرورت کے پیش نظر ایسا فیصلہ اور رائے عنایت فرماتے جیسے طبیب حاذق، نبض شنا س ہاتھ چھوتے ہی مرض کی تشخیص کرلے۔حضرت قاضی صاحب کا علمائے گجرات سے ربط وضبط: یوں تو حضرت قاضی صاحب کا علمائِ گجرات سے ربط وضبط گنے چنے افراد حضر ت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی، حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری وغیرہ سے کوئی ۲۵ ۳۰ سال پرانا رہا ہوگا، مگر باقاعدہ افادہ واستفادہ کا دور جس میں نوجوان علمائِ گجرات میں ایک حرکت،پرانے بزرگوں میں ایک فکر سوار ہو، اس کا آغاز مایہ ناز علمی ودینی درس گاہ دارالعلوم ماٹلی والا میں ہوئے ، فقہی سمینار سے ہوا ، جس کی استقبالیہ تقریر حضرت الاستاذ مولانا ابرار احمد صاحب دھولیوی نور اللہ مرقدہ نے فرمائی، قاضی صاحب نے اسی موقع سے دارالعلوم کنتھاریہ، دارالعلوم اشرفیہ راندیر، مظہر سعادت ہانسوٹ، جامعہ حسینیہ راندیر وغیرہ مدارس کا دورہ کیا اور بہت قریب سے یہاں کے علماء ومنتظمین کو دیکھا اور ان کے حسن انتظام، بعد ازاں جب مسلم پرسنل لاء بورڈ کا بارہواں اجلاس احمد آباد میں ہوا تو استقبالیہ کمیٹی کے لئے آپ کی نظر انتخاب حضرت مولانا غلام محمد وستانوی دامت برکاتہم اور حضرت مفتی خان پوری صاحب پر پڑی،جس کا نتیجہ یہ رہا کہ وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تاریخ کا کامیاب ترین اجلاس رہا، جس میں تقریباً مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تمام اراکین نے شرکت فرمائی اور اہم قرار داد وتجاویز پاس کی گئیں ، اس اجلاس کا اثر یہ ہوا کہ مسلم