قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
اپنے رسالہ ’’تنبیہ الولاۃ والحکام علی شاتم خیر الانام‘‘میں تحریر فرماتے ہیں : ’’وملت إلی قبول توبتہ أن رجع إلی الاسلام وإن کان لایشفی ضدری فیہ الا احراقہ وقتلہ بالحسام ولکن لا مجال للعقل بعداتضاح النقل‘‘۔ (ایضاً:ج۱،ص۳۱۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر کیچڑ اچھالنا اور آپ کی مقدس ذات کو داغدار کرنا یقیناً ایک انتہائی گھناؤنی حرکت ہے، جس کی مذمت تو کیا؟ ایسی حرکت کے مرتکب کو قتل بھی کردیا جائے تو کم ہے، شریعت کا حکم بھی یہی ہے کہ ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے کو تہ تیغ کردیا جائے، اور تاریح شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ایسا کیا، جیسا کہ آپ اگلے صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ علماء کے یہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے تو اس پر مستقل کتاب تحریر فرمائی ہے ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ کتاب کے آخر میں مصنف نے لکھا ہے: والحکم فی سب سائر الانبیاء کالحکم سب نبینا،فمن سب نبینامسمی باسمہ من الانبیاء المعروفین المذکورین فی القرآن اوموصوفابالنبوۃ،مثل أن یذکر فی حدیث أن نبینافعل کذاأوقال کذا،فیسب ذلک القائل أوالفاعل مع العلم بأنہ نبی،وان لم یعلم من ہو؟ أویسب نوع الأنبیاء علی الاطلاق فالحکم فی ہذاکما تقدم لأنہ الإیمان بہم واجب عموماوواجب الإیمان خصوصابمن قصہ اللہ علینا فی کتابہ وسبہم کفروردۃ إن کان من مسلم ومحاربۃإن کان من ذمی،وقد تقدم فی الأدلۃ الماضیۃ مایدل علی ذلک لعمومہ لفظًاأومعنی وماأعلم أحدافرق بینہما وإن کان أکثرکلام الفقہاء إنمافیہ ذکرمن سب نبینافإنماذلک لمسیس الحاجۃ إلیہ وأنہ وجب التصدیق لہ والطاعۃ لہ جملۃ وتفصیلا ولاریب أن جرم سابہ أعظم من جرم ساب غیرہ کماأن حرمتہ أعظم من حرمۃ غیرہ وإن شارکہ سائرإخوۃأنہ من