قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ترجمہ:یعنی درج بالاآیت کی روسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبراطہر کے نزدیک اورحدیث شریف پڑھنے کے وقت بھی رفع صوت ممنوع ہے ،کیوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح حین حیات میں واجب التعظیم ہیں ،اسی طرح بعد الوصا ل بھی واجب التعظیم ہیں ۔ ان آیات کے علاوہ بھی متعددمواقع پررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء رسانی اورگستاخی کوقرآن مقدس نے بہت بڑاجرم اورموجب لعنت قراردیاہے،تفسیرمنیر میں اس آیت کی تفسیر کے تحت ہے’ ’ أن إیذاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الذ نوب ولاذنب أعظم منہ‘‘۔(التفسیرالمنیر:ج۱۱،ص۴۱۷)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل آزاری سے بڑھ کر کوئی گناہ ہی نہیں ۔ یہ بھی واضح رہے کہ آیت میں اگرچہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کے بارے میں کسی درجے میں اجمال ہے، تا ہم کتاب مقدس کی تفسیر یعنی حدیث نبوی شریف میں اس حوالہ سے وضاحتیں موجود ہیں ۔ اس لئے علماء امت ایسے شخص کے واجب القتل ہونے پر متفق ہیں ۔ علامہ ابن عابدین شامیؒ نے حسام چلپی کے حوالہ سے نقل کیا ہے ’’اعلم أن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کفر وارتداد فیقتل بہ إن لم یتب وہذا مجتمع علیہ بین المجتہدین‘‘۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین: ج۱،ص ۲۳۳) ایسا شخص اگر توبہ نہیں کرتا تو اس کی گردن ماری جائے گی، اور یہ متفق علیہ مسئلہ ہے،البتہ یہ مسئلہ احناف کے نفطۂ نظر سے بحث طلب ہے کہ ایسا شخص اگر تائب ہو کر تجدید ایمان کرلے تو وہ قتل سے بچ سکے گا یا نہیں ؟ بعض فقہاء نے مطلقاً عدم قبول توبہ کا قول نقل کیا ہے۔ علامہ شامی ؒ نے بھی اسی کو جذبات کا آئینہ دار قرار دیا ہے، البتہ دلائل کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے آخری فیصلہ یہ کیا ہے کہ توبہ قبول کرلی جائے گی،وہ