قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
فقد کفر‘‘۔(الصیام المسلول/ص۲۷) یعنی یہ آیت اس امر میں صریح ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی آیت کا استہزاء کفر ہے۔ لہٰذا وہ سب وشتم جو بالارادہ ہو اس کا کفر ہونا تو بدرجۂ اولیٰ ثابت ہوگا، اوریہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص عصمت مآب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کرے گا، خواہ یہ تنقیص بنابر حقیقت ہو یا یوں ہی بطور مذاق ہو وہ کافر ہوجائے گا۔ (۴) یآیہاالذین امنوالاترفعواأصواتکم فوق صوت النبی ولاتجہروالہ بالقول کجہربعضکم لبعض أن تحبط أعمالکم وأنتم لاتشعرون(سورۂ حجرات۲) اے ایمان والو !تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند مت کرو اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے کھل کر بولا کرتے ہو ، کہیں تمہار ے اعمال برباد ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آوازپرآوازبلند کرنے اورزورسے بولنے پرحبط عمل اورکفرکااندیشہ ہے اوررفع صو ت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء رسانی اور سوء ادب کی دلیل ہے ،اگر چہ رفع صوت کرنے والا عمداً اس کا ارتکاب نہ کرے، تو جب بغیر ارادے کے صادر ہونے والی بے ادبی کفر ہے تو اذیت اور گستاخی جو عمداً ہو وہ بدرجہ ٔ اولیٰ کفرقرار پائے گی اور عمد کی صورت میں چوں کہ شکوک وشبہات کی بھی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے، اس لیے ایسے شخص کے مباح الدم ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ (الصارم المسلول/ص۴۳) علامہ آلوسی فرماتے ہیں ’’واستدل العلماء بالاٰیۃ علی المنع من رفع الصوت عند قبرہٖ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم وعندقراء ۃ حدیثہٖ علیہ الصلاۃ والسلام لان حرمتہ میتاکحرمتہٖ حیا‘‘۔(روح المعانی/ج۲۶،ص۴۰۴/بیروت)