قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
تم میں سے بعض کوچھوڑ بھی دیں تاہم بعض کوسزا دیں گے بہ سبب اس کے کہ وہ مجرم تھے۔ منافقین بظاہر کلمہ گولیکن بباطن کفر کی مضبوط طاقت رکھتے تھے، اپنے ہم خیال لوگوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پلاننگ اور موقع پاکر آپ کی شان جلیل میں گستاخی وسوء ادبی ان کا محبوب مشغلہ تھا، ان آیات کا نزول بھی اسی پس منظر میں ہوا ہے ، مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ ایک منافق نے اس طرح گستاخی کی تھی کہ محمد ہمیں بتلاتے ہیں کہ فلاں کی اونٹنی فلاں وادی میں ہے، حالاں کہ ان کو غیب کی کیا خبر؟ علامہ قرطبی کے بہ قول آیت کانزو ل وغیرہ تبوک کے موقع پر ودیعہ بن ثابت نامی منافق کے سلسلے میں ہوا ہے، اس نے استہزاء ً کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ شام کے محلات فتح کرلیں گے اور رومیوں کے قلعے زیرنگیں کرلیں گے ’’وہذاالآیۃ نزلت فی غزوۃتبوک،قال الودیعۃ بن ثابت:أنظروا!ہذافتح قصورالشام ویأخذحصون بنی الأصفر‘‘ (قرطبی /ج۸،ص ۱۹۷) قاضی ابن العربی ؒ نے احکام القرآن میں تحریر کیا ہے ’’ لایخلوان یکون ما قالو ہ من ذلک جداأوہزلا وہوکیف ماکان کفرفإن الہزل بالکفرکفرلاخلاف فیہ بین الأ ئمۃ۔(قرطبی /ج۸، ص۱۹۷) یعنی انہوں نے جو کچھ کہا بطور حقیقت کہا یا بطور مذاق،جو بھی صورت ہو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ،کیوں کہ کفریہ کلمات بطور مذاق کے بکنا بھی کفر ہے،جس میں کسی بھی امام کا اختلاف نہیں ہے۔ آیت بالا کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن احمد بن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں ’’وہذانص فی أن الاستہزاء باللہ وبایاتہ وبرسولہ کفر،فالسب المقصودبطریق الاولی،وقد دلت ہذہ الایۃ علی أن کل من تنفص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جادًّااہازلا