قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
جس کی و جہ سے اخلاق کی حقیقت نظر و ں سے او جھل ہے ، ہمیں معلو م ہی نہیں کہ خو ش خلقی کیا چیز ہے اور بد خلقی کس کو کہتے ہیں ۔ توآئیے! سب سے پہلے اخلا ق کی تعر یف اور اس کی حقیقت کو سمجھتے ہیں ۔ احیا ء العلو م جلد ثا لث ’’کتا ب حسن الخلق‘‘میں اما م غز ا لی ؒ فر ما تے ہیں کہ خَلق اور خُلق دو لفظ ہیں جو ایک ساتھ مستعمل ہو تے ہیں ، کہا جا تا ہے کہ’’ فُلاَنٌ حَسَنُ الْخَلْقِ وَالْخُلُقِ ‘‘ یعنی فلا ں ظا ہر و با طن کے اعتبار سے اچھا ہے ، خَلق بالفتح سے مرا د ظا ہر ی صور ت اور خُلق سے مرا د با طنی صور ت ہو تی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان دو چیز و ں سے مر کب ہے ، ایک وہ ظاہر ی جسم جو نظر آ تا ہے ، دوسر ی چیز رو ح ہے جو ظاہر سے پوشید ہ ہے ، لیکن بصیرت ،یعنی قلبی نگا ہ سے اس کا ہو نا معلو م ہوجا تا ہے۔ اما غز ا لیؒ کے ارشا د با لا سے یہ معلو م ہو تا ہے کہ اگر کسی انسا ن کی ظا ہر ی شکل و صور ت اچھی ہو تو اس کو حسن الخَلق کہا جائے گا اور جس کی با طنی شکل اچھی ہو تو اس کو حسن الخُلق کہا جائے گا۔ امام غز ا لی ؒ کی عبارت یوں ہے’’فَالْخُلْقُ عِبَارَۃٌ عَنْ ہَیْئَۃٍ فِیْ النَّفْسِ رَاسِخَۃٌ عَنْہَاتَصْدُ رُالْأفْعَالُ بِسَہُوْلَۃٍ وَکَثِیْرٌمِنْ غَیْرِحَاجَۃٍإلٰی فِکْرٍوَرُؤیَۃٍ‘‘یعنی خلق ایک ایسی ہیئت کا نا م ہے جو طبیعت میں اس طور پر راسخ ہو جائے کہ اس سے افعا ل سہو لت وبلا تکلف صادر ہو تے ہوں ،فکر واہتمام کی ضرورت پڑ تی ہو،لہٰذا وہ ہیئت ایسی ہے کہ اس سے عقلاً وشر عاً پسند یدہ افعا ل ہی صاد رہوتے ہیں تواس ہیئت کو خلق ِحسن سے تعبیر کیا جاتاہے، او ر اگر بر ے افعا ل صا د ر ہو تے ہوں تو اسے بد خلقی سے تعبیر کیا جاتاہے۔ لیکن اس دور کے فقیہ النفس حضرت مفتی تقی عثما نی دا مت بر کا تہم نے امام غز ا لی ؒ کی بیا ن فر مو دہ اخلا قی تعریف کو آ ج کل کی ذہنیت کو مد نظر رکھ کر نہا یت سہل اور آ سا ن