قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کے تما م ابو اب میں کوتاہی ہو ئی ہے ، اخلا ق کے معا ملہ میں کچھ زیا د ہ ہی کو تا ہی ہو تی چلی گئی اورستم بالا ئے ستم یہ بھی ہو ا کہ اخلا ق نبوی کی تعلیما ت کے ہو تے ہوئے اقو ا م یو رپ کے دجل وفر یب سے ملمع کئے ہوئے اخلا ق کو معیا ر تر قی اور نمو نہ زندگی بنایا گیا ہے اور اسلا م کے حقیقی اخلاق کو نہ صر ف متر و ک بل کہ سبب تنز ل قر ا ر دیا جا تا ہے ، ہمار ی حا لت توگو یا اس شعر کے مصدا ق ہونے لگی کہ ؎ چلتا ہو ں تھو ڑی دو ر ہر اک را ہ رو کے سا تھ پہچانتا نہیں ہو ں ابھی راہبر کو میں بہر حال حسن اخلاق یعنی خو ش خلقی شریعت کی نگا ہ میں بہت اہمیت کی حا مل ہے ، شر یعت نے اخلاق کو وہ در جہ دیا ہے جو بعض حیثیا ت سے عبا د ات پر بھی فوقیت رکھتا ہے چناں چہ ایک عو رت صو م و صلاۃ کی پا بند تھی،لیکن بد خلقی کی بنا پر حضور پر نو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلسلے میں فرما یا کہ جہنم میں جائے گی، اس کے با لمقا بل وہ عو رت جو زیا دہ نو افل وغیرہ کی پا بند نہ تھی لیکن خو ش خلق تھی تو ار شا د فرما یا کہ جنت میں جائے گی۔ خوش اخلاقی کی اہمیت اس سے بھی لگاسکتے ہیں کہ آ پؐ نے خو د اپنی زبا نی ارشا د فر ما یا ’’انمابعثت لا تمم مکارم الاخلاق‘‘کہ میں اس لیے بھیجا گیا ہو ں کہ مکا ر م اخلا ق کی تکمیل کرو ں ، لیکن ہمار ی غفلت کا یہ عا لم ہے کہ او ل تو ہم اخلاق کی اہمیت سے غا فل بل کہ نا واقف اور اگر کچھ اہمیت ذہن میں ہے بھی تو معیار اخلاق یہ بنا رکھا ہے کہ کسی کے چہر ے پر مصنوعی تبسم و انبسا ط دیکھتا ہے اس کی چکنی چپڑی با ت سن لیتا ہے تو ا س کو خوش خلقی سمجھ لیتا ہے خواہ دل کے اعتبا ر سے خیا لا ت و ار ا د ے کیسے ہی بر ے کیو ں نہ ہوں اور اگر کسی میں خشو نت اور خشکی ہو تو اس کو بد خلق کہہ دیتا ہے خو ا ہ اس کی یہ تر ش رو ئی خشو نت اور سختی کسی مصلحت کی بنا پر ہی کیو ں نہ ہو،ہم نے اخلاق کا یہ ایسامعیار بنا رکھا ہے