قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی کل یؤذیہ من الأقوال فی غیر معنی واحد ومن الأفعال أیضاوالطلق إیذاء اللہ ورسولہ وقیدإیذاء المؤمنین والمؤمنات لأن إیذاء اللہ ورسولہ لایکون إلابغیر حق أبدا،أماإیذاء المؤمنین والمؤمنات فمنہ ومنہ‘‘۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی/ج۱۴،ص۲۳۸/تہران، ایران) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت میں تمام اقوال وافعال داخل ہے جو آپ کی تکلیف کا باعث بنتے ہوں ، کسی ایک معنی میں انحصار کرنا صحیح نہیں ہے اگلی آیت میں وارد ’’بغیرماکتسبوا‘‘ کی قید پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ قرطبی فرماتے ہیں : ’’مؤ من مرداور مؤمن عورتوں کا مسئلہ مختلف ہے، ان کی ایذاء رسانی بعض مرتبہ خود ان کے کرتو توں کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ (۲) إذ یوحی ربک إلی الملٰئکۃ أنی معکم فثبتواالذین آمنواسألقی فی قلوب الذین کفرواالرعب فاضربوافوق الاعناق واضربوامنہم کل بنان،ذلک بأنہم شاقوا اللہ ورسولہ،ومن یشاقق اللہ ورسولہ فان اللہ شدید العقاب۔(الانفال/۱۲،۱۳) ترجمہ: (اور اس و قت کو یاد کرو ) جب کہ آپ کا رب ان فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی (مددگار) ہوں ( محمد کو مددگار سمجھ کر) تم ایمان والوں کی ہمت بڑھا ؤ، میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں ، سو تم (کفار کی) گردنوں پر مارو اور ان کے پورپور کو مارو، یہ (سزا) اس لئے ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخا لفت کی اور جو اللہ اس کی رسول کی مخالفت کرتا ہے سو اللہ تعالیٰ (اس کو ) سخت سزا دیتے ہیں ۔ آیت سے مدعاپر استدلال اس پر موقوف ہے کہ اس میں ضمیر کا خطاب کس کو ہے؟ ملائکہ کو یامؤمنین کو؟ علامہ فخرالدین رازیؒ نے ہر دو احتمال ذکر کرکے احتمال ثانی کو راجح قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’فاضربوا، فیہ وجہان : الأول أنہ أمر للملائکۃ متصل