قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
قصیدے کے بیچ میں آگیاہو،جب مشیت الٰہی نے چاہاکہ سورتوں کے اوائل نادرو بو قلمو نی تصویروں سے مزین ہوتوان کوخاص خاص قسموں سے شروع کیا،کہیں ایک ہی چیزکی تصویرہے،مثلاً:لکھنے والاقلم، کہیں دمکتا ستارہ توکہیں دوڑنے والا گھوڑا ، غبار انگیز ہوا ، تو کہیں صف بستہ ملائکہ،بعض جگہ مختلف چیزوں کوایک البم میں جمع کردیا،مثلاً: تین، زیتون طورسینین،بلدأمینیاطورکتاب مسطور،بیت معمور،سقف مرفوع،بحرمسجور یا مثلاً:شمس وقمر،لیل ونہار،ارض وسماء وغیرہ مختلف حکایات و تعبیرات پر مشیر و غماز اوراہم حقائق پردال اوران حقائق پراستدلال ہی اصل مقصدہے۔ اسلوبِ کلام کی یہ نادرکاریاں ،مخاطب کی نفسیات کوپیش نظررکھ کراس کی توجہ مبذول کرانے اورمضامین حقہ کوسہل الحصول بنانے کے لیے اختیارکی جاتی ہیں ،تاکہ بات کسی طرح اس کے دل میں گھرکرلے،اتمام حجت کااصل گُریہ ہے کہ اندازدعوت نہایت مؤثراوردل نشیں ہوکہ مخاطب کا دل مٹھی میں لے لے۔ اسی اسلوب دعوت کواپنانے کارب کائنات نے حضرات انبیاء کرام کو بنایاا ور اس کی خاص تعلیم دے کر’’فقولالہٗ قولالینالعلہ یتذکراو یخشٰی‘‘ اس سے نرمی سے باتکیجیوتاکہ وہ نصیحت حاصل کرے یاڈرے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قسم کے لیے ’’و‘‘کااستعمال ہویا’’ل‘‘کایالفظ’’قسم‘‘کا بظاہر اس کایہ انداز واسلوب سادہ ہوتاہے لیکن کائنات کی حقیقت کواپنے اندر سموئے ہوئے ہے،معمولی ساوجودرکھنے والاوجیزومختصریہ جملۂ قسمیہ عقل انسانی کوہلاکررکھ دینے والے اسلوب کامظہرہے۔ایک ایسااسلوب جوابواب العلوم کے لیے مفتاح اور دریا بکوزہ کامصداق، صدیوں سے ارباب علم وفن سردھن رہے ہیں ،لیکن نت نئے معانی کی تلاش کاسلسلہ آج بھی جاری ہے۔