قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کسی مذہبی صحیفہ کواس کی جامعیت اورہمہ گیریت بل کہ عالم گیریت کے مقا بلہ میں لایاجاسکتاہے؟ اورآگے چلئے!تو’’والطور‘‘قسم ہے طور کی۔یعنی پہاڑگواہ ہیں جوآج اپنی جگہ پراتنے مستحکم ومضبوط نظرآرہے ہیں ،لغت کے اعتبار سے طورکامفہوم عام ہے،یعنی مطلق پہاڑ،وہی سیاق سے زیادہ مطابق و منا سب ہے۔ ’’والطورسے لے کروالبحرالمسجور‘‘تک پانچ مرتبہ ’و‘کااستعمال ہے لیکن اس میں واؤ اول قسمیہ ہے،اورباقی واؤ عاطفہ ،اوریہ بھی عربی انشاء کی اعلیٰ مثال ہے۔ اوراسی طرح’’والعصر‘‘محض وقت کامفہوم اداکرنے کے لیے عربی زبان میں ،زمان،دہروغیرہ ،اوربھی الفاظ تھے،لیکن گزرتے ہوئے زمانہ کی طرف ،مرورایام کی طرف خاص اشارہ کرنے کے لیے یہی لفظ ’’عصر‘‘زیادہ مناسب ہے،جیساکہ صاحب کشاف علامہ زمخشری ؒ رقم طرازہیں کہ ’’وقسم بالزمان لمافی مرورہ من اصنا ف العجائب‘‘عصرزمانہ کوکہتے ہیں ،یعنی قسم زمانہ کی ،جس میں انسانی عمربھی داخل ہے جو تحصیل علم اوراکتساب ِکمالات کا ایک گرانمایہ دور ہے،اگریہ غفلت ونسیان کی نذر ہو جائے تواس سے بڑھ کر انسان کاکوئی نقصان ہوہی نہیں سکتا۔ اسی طرح دیکھتے چلیں کہ قرآن مقدس کی جن جن سورتوں کے آغاز میں قسمیں آئی ہیں ان کی ادبی چاشنی اور جاذبیت کسی بھی باذوق اہل نظر سے مخفی نہیں ہے،بل کہ یہ کہاجائے توبجاہوگاکہ ان قسموں نے سورتوں کے حسن میں دوبالگی اورایک عنوان جمال بخش دیاہے،جیساکہ صاحب اقسام القرآن علامہ فراہی کی وضاحت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوائل سورمیں یہ قسمیں اس طرح چمکتی دمکتی نظرآتی ہیں جس طرح انگشتری میں نگینہ ، اگرچہ بیچ سورتوں میں بھی قسمیں آئی ہیں ،مگرکم؛ لیکن ایسامعلوم ہوتاہے جیسے مطلع