قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
سورۂ زخرف ’’حم والکتٰب المبین‘‘میں ’و‘ کااستعمال اسی طرح سورۂ ق میں ’’ق والقرآن المجید‘‘میں ’و‘کااستعمال ’’والطوروکتاب مسطور‘‘میں ’و‘کا استعمال ، والضحٰی والیل اذاسجٰی میں ’و‘کااستعمال،قسم کے مفہوم میں ہواہے اورقسم کااستعمال عربی شہادت کے لیے بھی ہوتاہے، جیساکہ اس عبارت سے آشکاراہے کہ ’’والکتٰب المبین‘‘یعنی قسم ہے کتاب واضح کی،مطلب یہ ہے کہ قرآن ایک واضح کتا ب ہے باعتبا ر اپنے پیش کردہ مہمات عقائد کے بھی اورباعتبار اپنے احکام اساسی کے بھی۔ ’’واؤ‘‘کا استعمال کلام عرب میں تاکیداورزور کلام کے لیے قسم میں لانے کا دستورعام ہے اوراستشہاد کا پہلو جوقسم میں ہوتاہے،وہ اس خاص موقع پرعیاں ہے ،اور قرآن کی بلاغت میں غورکرنے سے خود اس کے مضامین کااعجاز ظاہرہورہاہے،قرآن کی قسم کھاکراس کی صفت مبین بیان کرنادرحقیقت یہ واضح کرناہے کہ قرآن حکیم اپنے ہر دعوے پرخود حجت ہے،کسی دلیل خارجی کامحتاج نہیں ہے،جولوگ اس کی تکذیب کے بہانے ڈھونڈرہے ہیں ،ان کاکام حقیقت میں آفتاب پرخاک ڈالنے کے مرادف ہے ایک مختصر سی آیت میں معانی کایہ سمندر ان کی فصاحت و بلاغت کا خودگواہ ہے۔ اسی طرح ’’والقرآن المجید‘‘قسم ہے قرآن مجیدکی،عربی اسلوب بیان میں قسم کا مفہوم تاکیدکا ہوتاہے اورجواب قسم یعنی قسم کے بعد کا مضمون اکثر بغیرکسی صراحت ووضاحت کے محض سیاق سے مفہوم ہوتاہے،قسموں کی بحث کاتعلق تمام تر اسلوب بیان وبلاغت سے ہے،قرآن مجیدکی قسم کامفہوم صرف اس قدر ہے کہ یہ کتاب اپنے مضامین کی بے نظیر بلندی اورمعنویت کے لحاظ سے خود ہی اپنی صداقت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پرگواہ ہے،’’المجید‘‘یعنی بزرگی اورشرف والاقرآن ، آج دنیا کی کون سی کتاب اپنے بلندمعیاراورمعانی کا بحرذخار ہونے کے لحاظ سے اس کے ٹکر کی ہے؟ کیا