قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ضرورت پیش آتی ہے،اس کی اعلیٰ مثال بھی قرآن حکیم کی قسمیں ہیں ،مثلاً: سورۂ طارق کی آیت ۱۱تا۱۴؍والسماء ذات الرجعoوالارض ذات الصدع o انہ لقول فصلoوماہوبالہزلیعنی اورقسم ہے آسمانِ پُرنگار کی،اورزمین پرشگاف کی کہ یہ دوٹوک بات ہے اورہنسی مذاق نہیں ہے۔ اقسام قرآن کی ایک اورخصوصیت ہے ،قسموں کا طرز اظہاریعنی انشاء جس کی تردیدنہیں کی جاسکتی،کیوں کہ اکثرمقامات پرخبرکی صورت بھی سامنے آتی ہے،جسے ہم علم معانی میں یوں اداکرتے ہیں کہ یہ جملہ صورۃً انشاء معناً خبرہے،اس لیے نفس قسم کا انکارکرنا آسان نہیں ہوتا،جیساکہ ۱) ’’والصّٰفٰت صفا‘‘(صافات۱؍)کامطلب ہوگا ملائکہ غلامو ں کی طرح صف بستہ ہیں ،اگرتشریح کی جائے توہرقسم جملۂ خبریہ کے سانچے میں ڈھل جائے گی۔ ۲) ’’فالمقسمٰت امرًاo(ذاریات۴؍)فالفٰرقٰت فرقًا‘‘(مرسلات۴؍)کامطلب ہوگا،ہوائیں خداکے حکم سے فرق وامتیاز کرتی ہیں ۔ ۳) ’’والقرآن المجید ‘‘(ق۱؍)کامطلب ہوگا،یہ قرآن برترکلام ہے۔ ۴) ’’والیوم الموعود‘‘(بروج۲؍)کامطلب ہوگا،ان کے محاسبے کا ایک روز مقرر ہے ، پس گویا یہ خبریں ہیں جوصٰفّٰتْاورفٰرِقٰتْکے اندرمخفی ہیں اورچو ں کہ یہ قسم کا اسلوب لیے ہو ئے ہیں ،اس لیے ان اشیاء کاشہادت اوردلیل ہونامزیدبرآں ہے،اس اعتبار سے گویااس میں خبریں چھپی ہوئی ہیں ،اس اسلو ب قسم میں ایک خوبی اورندرت یہ بھی ہے کہ استدلا ل کے لیے بہت ہی مناسب ہے،اس اسلوب میں اختصاربھی ہوتا ہے اور الفاظ کی کمی کے ساتھ ساتھ مفہوم ربانی تمام حجابات ومبہمات سے مجرد ہوکر بسہولت سامنے آجاتاہے، جس کی وجہ سے کلام کی تاثیراورشان وشوکت میں اضافہ ہوتا ہے۔