قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
تھے کہ وہ ہرگز نہ آئے گی،باری تعالیٰ نے اسی پس منظرمیں اسی طنطنہ اورہمہمہ کے ساتھ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بصورت قسم جواب دلوایاکہ ان کوسنادو،ہاں میرے رب کی قسم وہ تم پرضرورآئے گی،آئیے اس مقام پر رب کے قسم کھانے اورحلف اٹھانے میں کیا کیا فصاحتی پہلوہیں تھوڑا تدبر کریں ۔ (۱) اولاًاللہ کے علم غیب کاثبوت: یعنی میرے رب کی قسم جومغیبات سے واقف کارہیں آسمانوں وزمین میں ذرہ برابربھی کوئی چیزمخفی نہیں ،ہرچیزایک واضح رجسٹرمیں درج ہے اس ذات عالم الغیب نے قیامت کے برپاہونے کی خبردی ہے۔ (۲) ثانیًا:علم الٰہی کی وسعت کابیان بھی اس قسم میں پنہاں ہے گویا کہ نہایت بامعنی اندازمیں منکرین کی تہدیدکے مقصدسے کہاگیاکہ وہ چوکنا ہوجائیں کہ تمہاری انکارِ قیامت کی ڈِھٹائی کاضدی کردارخدائے ذوالجلال سے مخفی نہیں ہے۔ (۳) ثالثًا:اس قسم میں ایک مغالطہ کاازالہ بھی ہے اوراللہ تعالیٰ کی حکمرانی کا ثبوت بھی،منکرین قیامت یہ کہتے تھے کہ اتنی وسیع دنیاکے ایک ایک فردبشرکے قول وفعل ، حرکات وسکنات،نشست وبرخاست کاعلم اللہ تعالیٰ کوکیسے ہوسکتاہے اورسب کا حساب کیسے کریں گے،تواس میں ازالۂ مغالطہ بھی ہے اوراثبات وسعت حکمرانی بھی۔ یہی مضمون کتاب مقدس میں مختلف ادبی پیراؤں کے ساتھ سورہ ٔ اعراف (آیت ۱۸۷)سورۂ طٰہ(آیت۱۵؍)سورۂ لقمان(آیت۴ ۳؍ ) سورۂ احزا ب (آیت۶۳؍)سورۂ ملک (آیت۲۵،۲۶؍)سورۂ نازعات (آیت؍۴۲تا۴۴) میں بھی بیان ہواہے۔ لیکن آیت مذکورہ ’’قل بلـٰی وربی لتأتینکم عالم الغیب‘‘(سباء۳)اس کی ایک انفراد ی شان ہے جس کواہل ِ نظرخوب سمجھتے ہیں نیزقسم میں قول کی پختگی اورتائیدکی جو