قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
بالخصوص ایک کی با ت دوسر ے تک نقل کر نے میں بے احتیا طی،لا پر وا ہی اور غفلت،یہ بھی معاشر ے کی وبا ء ہے کہ دوستو ں کی دوستی ،دشمنوں کی دشمنی ، رشتہ داروں کی رشتہ دار ی ،عدا و تو ں میں تبدیلی ہو جاتی ہے، پڑوسی ،پڑ وسی کے ما بین نفرت،ہم منصب ،ہم پیشہ لو گو ں میں بُعداور دور ی ، فتنہ و فساد،خا نہ جنگی،یہ سب دوہی چیز و ں کا نتیجہ ہے ،جس میں ایک بد گما نی اور دوسر ی نقل ِکلام میں بد احتیاطی۔ ہم تک قر آ ن ِمقد س اوراحادیث ِنبو یہ(صلی اللہ علیہ وسلم)پہنچیں ،اور اس سلسلہ میں تقر یباً امت ِمسلمہ کوجس انداز کا اعتر اف و اعتما د ہے اس کا را ز،اس کاپس منظر اگر آپ نا قلین کے انداز نقلی اور سلسلہ رواۃ کے حد درجہ احتیا ط کو مد نظر رکھیں تو انداز ہ ہو گا کہ’’الصدق ینجی والکذب یہلک‘‘ کاکیسا استحضا راور’’من کذب علی متعمدًا‘‘ کا کس قدر دھیا ن ان حضرا ت محدثین کو رہا۔ اما م مسلم ؒ نے اپنی صحیح مسلم میں یہ التزا م کیاکہ اگرکو ئی حدیث پا ک کسی شیخ یا استا ذسے حاصل کر تے ہوئے تن تنہا،فر د فر ید تھے ،تو اس روا یت کو حدثنی سے تعبیر کیا اور اگر کسی روایت کو کسی شیخ ِوقت کے حلقۂ درس میں شا مل ہو کر، دیگر رفقاء کے ساتھ اخذ کیا تو اس روایت کو’’حدثنا‘‘ سے تعبیر فر ما یا۔ اسی طر ح علا مہ خطیب بغدا دی ؒ نے اپنی کتا ب’’الکفایۃ ‘‘ میں ایک محدث کا واقعہ نقل کیا ہے کہ جب وہ ایک خاص حدیث سنا یا کر تے تھے ،تو’’حدثنا‘‘ کے بجائے ’’ثنا‘‘کے ذریعہ نقل فر ما تے ،تو ان کے تلا مذہ نے ان سے در یا فت کیا کہ حضرت اس مقا م پر پہنچ کر آ پ ’’حدثنا‘‘ کے بجا ئے’’ثنا‘‘ کا تکلم وتلفظ کیو ں فر ما تے ہیں ؟تو استاذ نے فر ما یا: کہ جب میں میر ے شیخ کے درس میں پہنچا ،تو استا ذ نے درس شر و ع کر دیا تھا اور میر ی