قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
شیخ عبداللہ بصفرنے مدلل ومحقق اور استحضارروایات کے ساتھ سلیس انداز میں عربی میں خطاب کیا،اورجامعہ کے نوجوان فاضل مدیر تعلیمات جناب مولاناحذیفہ سلمہ الرحمن نے بڑے دلکش انداز میں اس کا ترجمہ کیا، شیخ نے اپنے کلیدی اورپرمغزخطاب میں ارشاد فرمایاکہ ہندوستان کا یہ علمی اور قرآنی روح پرورسفر میری زندگی کایادگارسفر ہے اوریہاں کے علماء وصلحاء سے مل کر جس چیز نے سب سے زیادہ مجھے متأثر کیا وہ یہاں کے علماء کا تواضع ہے ،اور اسی تواضعِ علماء نے ہندوستانی علماء کو رفعت کی بلندیوں پر پہنچایا ہے ،سچ ہے’’من تواضع للہ رفعہ اللہ‘‘(مسنداحمدبن حنبل)۔ فرمایا کہ علماء ہند کے بے تاج بادشاہ شیخ ابو الحسن علی الحسنی الندوی جب ہماری مسجدشعبی میں تشریف لاکرخطاب فرماتے،توبڑے بڑے علماء وادباء کاسرمارے شرم کے جھک جاتا،لیکن اس جبل العلم کی سادگی سے سب محوحیرت ہوتے،نیزفرمایاکہ اتنابڑا جا معہ جس نے ایک مکمل یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی،ہم نے فلک بوس عمارتیں اور وسیع ترین بلڈنگیں دیکھ کریہ تصوربنالیاتھاکہ اتنے بڑے ادارہ کامؤسس اوررئیس کامکتب ( آ فس ) کتنا عالی شان ہوگا، لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی،جب مکتب میں پہنچا،نہ اعلیٰ ترین کرسیاں نہ لوازماتِ مکتب،بل کہ چٹائی او رفرش پر ایک آدمی کی مسند لگی ہوئی تھی اس توا ضع اور سادگی نے اس ادارے کو بام عروج پر پہنچایا ہے۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ہم سب تکریم حفاظ کے لیے جمع ہیں ، یہ وہ گروہ ہے کہ ان کااکرام دنیا میں ہم کریں نہ کریں ،ان کے والدین کو تاج پہناکراللہ تعالیٰ اکرام کریں گے، اور ایک حدیث پاک کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس مسابقہ میں معصوم ، ننھے منے بچوں نے شرکت کی،حدیث پاک میں سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد