قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
میں لگ جاتیں ،کسی کارشتہ ،کسی کا نکاح، کسی کی خوشی اور کسی کی غمی، کون ساایسامرحلہ والدہ کے سامنے نہ آیا ہو اور انہوں نے اپنے مولیٰ کا دروازہ نہ کھٹکھٹا یا ہواورہاں نمازِ تہجد اوراس کے بعد دعاؤں کے اہتمام میں اپنے بیٹے پوتے پڑ پوتے،بہوبیٹیاں نواسے نواسوں کے نام تو ایسے نوکِ زبان تھے کہ دورانِ دعا نام بنام ان کی فلاح وبہبودی، ان کے نیک رشتوں اورجوڑوں کی سلامتی اور ان کی قیامت تک آنے والی نسلوں کی حفا ظت ِ ایمان واسلام کی دعا، ان کے حیاتِ مبارکہ کا معمولِ دائمی بن چکا تھا۔جس کے صدقہ اللہ پاک نے وادی ٔ مریم کواتناپھیلایااور پھلایاکہ جسے شاعرانہ اندازمیں یوں تعبیرکیاجا سکتا ہے ؎ دعا بَہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے کہیں جگہ نہ ملی میرے آشیانے کو بہر حال کسی بندے یا بندی کی زندگی کا ماحصل یہ ہے اوریہی اصلِ عبدیت ہے کہ مخلوقِ خدااورخداسے،خالق اورمخلوق سے روابط کی استواری اورہم آہنگی برابر رہے، یعنی ع……راضی رہے رحمن بھی ،خوش رہے عبادِ رحمن بھی والدہ مرحومہ مشفقہ کی یہ خصوصیات وامتیازات ذکرکرکے کسی اورسے ان خوبیو ں کی نفی یاانکا رمقصود نہیں ہے بل کہ ماں کی دینی جفاکشی،سخاوت وہمدردی،شانِ تربیت، اہتمامِ دعاوغیرہ ،ذکرکرکے ہرحال ومستقبل کی ماؤں کوان اوصاف سے متصف ہونے کی رغبت دلانامقصودہے،جب ماں ان اوصاف سے متصف ہوتی ہے توان کی نسلوں میں حفاظ، علماء، صلحاء،مفتیانِ کرام، مفسرین ومحدثین کی کھیپ تیار ہوتی ہے،چناں چہ گلشن ِمریم کے ان گلہائے رنگا رنگ پر نظر ڈالی تو میں اس نتیجہ پر پہنچاکہ اس وادی میں دسیوں مفتیانِ کرام ،پچاس سے زائد علماء،اتنے ہی حفاظ وحافظات کی جماعت اللہ نے پیدا فرمائی ہے، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔