قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
والدۂ مرحومہ نے دینی جفاکشی اس دورمیں اتنی کی کہ ان کی اولاد کو ان کے اساتذہ کبھی مجاہد اور چھوٹے مجاہد تو کبھی مجاہد اول،ثانی،ثالث سے پکارا کرتے تھے،اللہ پاک ماں کی ریاضت کے طفیل اولاد کو ان کے نام سے مقبول کرے اسم بامسمیٰ بنائے ۔ والدہ محترمہ کی دوسری خصوصیت تربیت اولاد تھی،تربیت اولاد کے سلسلہ میں بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی ایسی تربیت فرمائی کہ صبح فجرکے فوراًبعد ہمارے گھرمیں تلاوت قرآن کی آواز گونجتی تھی، کوئی سبق پڑھ رہا ہے، کوئی کسی کو سبق یاد کرا رہا ہے،کوئی والد کی گرفت سے بچنے کے لیے سبق دہرارہاہے،جو چیزگھرمیں اچھی بنتی اس کو لے کر ہمیں استاذکے گھربھیجاجاتا،اولادکے دل میں استاذکی عظمت وخدمت کاجذبہ پیدا کیا کبھی اعزاء ورشتہ داروں میں کسی بہن کے ذریعہ کوئی چیزپہونچائی جارہی ہے،توکبھی بیما ر دادی اماں کی خدمت کے لیے کسی بہن کوبھیجاجارہاہے، توکبھی نانا،نانی کے گھرخدمت کے لیے کسی بہن کو مکلف کیا جارہا ہے،گویا صلہ رحمی کاسبق عملی طورپر دیا جا رہا ہے،توکبھی محلہ میں گاؤں کاکوئی مردبیمارہوتاتومفتی صاحب سے لے کربھائی عبد الرحمن ہرایک بیما ر پرسی کرتے اوراگرکوئی عورت بیمارہوتی توبڑی بہن سے لے کر چھوٹی بہن تک سب کو بیمارپرسی اورانتقال پر تعزیت مسنونہ ان کی طبیعت ِثانیہ بن چکی تھی۔ مرحومہ موصوفہ کی ایک خاص صفت ہمدردی، غم گساری اوررواداری کی تھی، اگر ان کے پاس کچھ پیسے ہوتے تو دیتی نہیں تھیں بل کہ لٹاتی تھیں ،ان کے پاس تقسیم کے ذہنی اقسام تھے،اگر ان کے پاس کچھ سوناتھاتواپنے پوتیوں اورنواسیوں کو دے دلاکر پہلے ہی فارغ ہو چکی تھیں ، یہ عبداللہ کی بیٹی کا،یہ عبدالرحیم کی بیٹی کے لیے، یہ عبد الرحمن کی بیٹی کااور اخیرمیں دو سونے کے ایرنگ تھے، تو فرمانے لگیں کہ یہ میری ہاجرہ کی بیٹی کے لیے ہے اور اکل کوا پہنچ کرحافظ اویس وستانوی کی بیوی اوراپنی نواسی کے کانوں اپنے