قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
اسی دینی جفا کشی کے تحت مسجد میں آئی تبلیغی جماعت کی دعوت کااہتمام فرمائیں ،گھرکی بھینس کے لیے چارہ کاانتظام کرتیں ،بوڑھی ماں کی خدمت کے لیے کچھ دیرحاضری دیتیں ،کھیت پر مزدوروں کے لیے روٹی پہونچانے کی فکر کرتیں ،اپنے شوہرکے کھیت سے واپسی پرٹھنڈے پانی کے ساتھ استقبال کرتیں اور چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں کو اسکول پہونچانے کا نظم کرتیں اور ان ساری ذمہ داریوں کے ساتھ نماز سے کبھی غافل نہ ہوتیں ، کیا میری ماں ثَلاَثَۃٌلَّہُمْ أجران کا مصداق نہیں تھیں ؟ ماں ! تیرے مقدس آنچل کو سلام۔ ارے ہاں بچپن کاایک واقعہ نوکِ قلم پر آرہا ہے،ہمارے والدصاحبؒ نے فرمایا:آج ایک جماعت ۲۲؍ نفری رویدرا میں ہے، شام کو ان کی دعوت میں نے کی ہے، اس لیے تیاری کرو، چناں چہ والدہ محترمہ نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ تیاریاں شروع کیں ، نمازِ ظہر کی ادائیگی کے کچھ نصف گھنٹہ بعد مجھ سے فرمانے لگیں میں بھینس کے لیے چارہ لینے جارہی ہوں ،تم بھی چلو تومیں والدہ کے ساتھ ہولیا، والدہ کی نظر گھاس کاٹتے کاٹتے ایک زہریلے سانپ پرپڑی،فرمانے لگیں بیٹاجلدی گھرچلے جاؤمیں آتی ہوں ،میں نے جانے میں تھوڑی تاخیرکی توباربارشفقت بھرے اندازمیں کہنے لگیں جاؤبیٹاجلدی جاؤ، میں کھیلتے کھیلتے اپنے گاؤں کے’’ محتاج محلے‘‘کے احمدنورات صاحب کی دکان پر پہنچاہی تھا کہ والدہ اپنا ایک پیر پکڑ کر جلدی جلدی گھرکی طرف آرہی تھیں ،باربارپوچھاماں کیا ہوا، کیا ہوا، فرمانے لگیں کچھ نہیں جلدی چل، گھرپر پہنچ کر پتہ چلا کہ جس سانپ سے مجھے بچارہی تھیں اسی سانپ نے ماں کو ڈس لیا،اس زمانے میں ایک دیہاتی علاج ہوتا تھا کہ مرغی کے چوزے مخصوص طریقے سے زہرکوچوس لیتے تھے،اس کے ذریعہ علاج کرایا گیا ، جو الحمد للہ کارگر ثابت ہوااورتقریبا۲۲؍چوزوں کے ذریعہ زہرکے اثرکو روکاگیااوربقیہ علاج والد صاحب اورناناجان نے بھروچ سے کرایا،مجھے توصرف یہ باور کرانا ہے کہ