قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
سے عقیدت ومحبت کے انمٹ نقوش کے لیے تو دفتر کے دفتر بھی ناکافی ہیں ،سرِدست والدۂ محترمہ نے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعداپنے شوہرسے وفاداری، خدمت گزاری،اور اپنے خسروساس کے ساتھ نیزاپنی نندوں کے ساتھ حسن سلوک کے فرائض بحسن وخوبی انجام دئے اور اللہ تعالیٰ نے بطور نعمت ِعظمی کے انہیں ایک ہونہار ذہین، فطین بیٹاعطا کیا،جس کا نام والد محترم نے عبد اللہ تجویز کیا،جو بعد میں چل کر مفتی عبد اللہ سے مشہورہوئے، بہرحال باپ نے اپنے بیٹے کی تربیت اس انداز سے کی کہ جو بعد کی سب اولاد کے لیے بہترین آئیڈیل ثابت ہوئے یوں توہم مجموعی طورپر۱۳؍بھائی بہن ہیں ۔ والد بزرگوار نے علماء کے مشورہ سے سب کے نام نبی کی بیٹیوں یا ام المؤمنین کے ہمنام اوربیٹوں کے نام میں احب الاسماء الی اللہ کااہتمام کیااورنیک فالی کاجذبہ رکھا ، جس کی برکت سے تقریباعام بہنوں کی نسبت صاحب ِفضل وکمال یااصحابِ صلحاء کے ساتھ مقدرہوئی،اللہ نے ان ناموں کے صدقہ خدام دین بننے کی سعادت نصیب فرمائی ۔ جس میں والد محترم کے جذبۂ صادقہ کے ساتھ ساتھ والدہ محترمہ کی نیکی،پارسائی،آہِ سحرگاہی،دوام ِصوم وصلاۃاور اولاد کے لیے فکرِ مسلسل،مجاہدۂ پیہم کابھی بڑا دخل ہے، یہاں والدۂ محترمہ کی خوبیوں کو زیرِ قلم لا کر اپنی ثناخوانی اور مدح سرائی مقصود نہیں ہے، بل کہ مقصود یہ ہے کہ امت کی مائیں اسی طرح اپنی اولاد کی تربیت میں ایسی فکر مندی ،جگر پاشی اورخون کے گھونٹ پینے کاحوصلہ رکھیں تووہ اپنی روحانی رازی،غزالی،رومی و حقانی، پالن پوری،مظاہری،اشرفی اوروستانوی جیسی اولاد امت کو پیش کرسکتی ہیں ۔ والدۂ محترمہ کی خصوصیاتِ حیات اورامتیازاتِ زندگی کااگربغورمطالعہ کیاجا ئے تومعلوم ہوگاکہ دینی جفا کشی کی ایک خاص صفت ان میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔