قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
چاہت پراس دلِ دردمندنے امارت ِشرعیہ بہارواڑیسہ کے شعبۂ قضاکی باگ ڈور سنبھالی،جوحیات کے آخری مرحلہ تک باقی رہی،حضرت قاضی صاحبؒ کوان کی علمی صلاحیت ،قوت ِفکریہ کا صحیح استعمال اورامت کے ہرطبقہ کوساتھ لے کر چلنے کے مزاج نے ایسا اٹھایا کہ بہت جلد آپ ہندوستان کے صفِ اول کے علماء کے قلوب میں جگہ پاکر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن تاسیسی منتخب ہوئے اورمفکر قوم وملت حضرت علی میاں ؒ کے انتقال پر ملا ل کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کلیدی عہدہ پر باتفاق آراء جلوہ افروز کئے گئے،یہ سب نتیجہ ہے صلاحیت کے ساتھ ساتھ مزاجِ صالحیت اور افراد سازی کا۔ حضرت قاضی صاحب کا ہر طبقہ امت میں مقبولیت کا راز مزاج افراد سازی تھا جب کہیں اور جہاں کہیں آپ کا مدارس وجامعات اسکول وکالجز میں جانا ہوتا تو آپ کی نظر سب سے پہلے وہاں کے نظام واستحکام تعلیمی پر جاتی کہ یہاں معیارِ تعلیم اور مدرسین کا ذوق علمی کس معیار کا ہے، پھر اگر ان کو تسلی ہوجاتی تو ادارے کی حسن کارگردگی پر زبانِ تحسین روکے نہ رکتی اور ذرابھی بخل نہ کرتی،ہمارے زمانہ تعلیم میں فلاح دارین ترکیسر میں امتحان ہال میں تشریف لائے، دورۂ حدیث شریف کا طحاوی کا پرچہ تھا، صرف ایک طالب علم سے دریافت فرمایا کہ طحاوی کی کتاب کانام کیا ہے، طالب علم نے جواب دیا کہ شرح معانی الآثار، سنتے ہی خوش ہو کر حوصلہ افزاء کلمات فرماتے ہوئے نکل گئے۔ حضرت محترم نے اپنی حیات میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام فقہی سمینا ر کا انعقاد شروع کیا اور انصاف کی بات یہ ہے کہ ان فقہی مجالس نے بھی افراد کو یتار کرنے کاایسا خاموش اور بے ریاء کارنامہ انجام دیا کہ وہ فقہ وفتاویٰ واصول کی امہات الکتب فتاویٰ قاضی خاں ، خلاصۃ الفتاویٰ، فتاویٰ بزازیہ ، توضیح تلویح جیسی جویاتوکتب خانوں اورالماریوں کی زینت تھیں یا انھیں گرد کھارہی تھی،ان کتابوں کو نئی زندگی ملی اور نو خیز