قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
مفتیانِ کرام جن کا مراجع بعد کے جدید فتاویٰ کی کتابیں تھیں ،انھوں نے میدانِ عمل میں آکر مستقل عنوان اور مبحث کو اصول میں تلاش کیا اور اس طرح حوالہ کے ساتھ مضمون نگاری،فتاویٰ نویسی کاذوق بنا۔ جب حضرت قاضی صاحبؒ کے یہاں طلبہ تربیت قضاء کے لیے تشریف لے جاتے تو قاضی صاحب طلبہ کے داخلہ کے بعد ـپہلے ذہنی تربیت فرماتے، حد تو یہ کہ ان قضا ء کے طلباء سے نحو میر، شرح مأۃ عامل حل کراتے، اعراب کااجراء کراتے اوران کو اپنے عمل وکردار سے باور کراتے کہ جب تک بنیاد پختہ نہ ہو سب بے کار ہے یہ تھا افراد سازی کا انداز۔کبھی قاضی صاحبؒ تربیتِ قضاء کے طلباء کو طلب کرتے اور فرماتے’’شامی دیکھنے کایہ طریقہ ہونا چاہئے، تحفۃالقضاء دیکھنے کایہ اسلوب ہے، قواعدالفقہ ایسے دیکھی جائے اور فرماتے، روزانہ جس قدر مطالعہ کیا جاوے اس کایومیہ مقدار رفتہ رفتہ بڑھایاجائے اور حاصل مطالعہ اپنے الفاظ میں قلم بند کیا جائے، تاکہ فقہی مزاج سازی کے ساتھ ساتھ ذو ق مضمون نگاری وانشاء پردازی بھی پروان چڑھے۔ ہمارے جامعہ اکل کوا میں بھی حضرت قاضی صاحبؒ کے منظورِنظر،تربیت یافتہ، کا میا ب استاذ فقہ واصول فقہ جناب مفتی جعفر صاحب موجودہیں ،گویاکہ حضرت قاضیؒ کار وحانی فیض جامعہ میں بھی جاری وساری ہے۔ حضرت قاضی صاحبؒ بایں ہمہ اوصاف بقول شخصے’’العلم زینۃ العلم‘‘ کے عظیم وصف، حلم وبردباری سے بھی آراستہ تھے،یہ منظربارہادیکھنے والوں نے دیکھا کہ مجلس فقہ منعقد ہے اور مناقشہ کا دور شروع ہوا، کسی مسئلہ میں قاضی صاحبؒ کی رائے میں کچھ تسامح نظر آیا، فوراً مجلس سے کوئی نوآموز، نوخیز شاگرد نماآپ کی رائے پرجرح کرتا نظر آیا،بل کہ کبھی کبھار قاضی صاحب کے علمی مقام سے عدمِ معرفت کی بنیادپرلہجہ اوراندازبھی