قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
’’موت العالِم موت العالَم‘‘ کا صحیح اورسچا مصداق ہے، ہم سب ایک دوسرے کی تعز یت اورایک دوسرے کی تسلی کا سامان فراہم کریں ، بل کہ آپس میں مل کر یوں کہیں کہ ؎ آعندلیب! مل کے کریں آہ وزاریاں توہائے گل پکار،میں چلاؤں ہائے دل لیکن جانے والا اپنی حیاتِ مستعار گذار کر جب چلا جاتا ہے تو اخلاف کے لیے دو کام چھوڑ جاتا ہے، ایک یہ کہ اگر اسلامی اخوت وہمدردی، کمالاتِ علمی وعملی کے سبب آپ کو ان سے محبت ہے تو خلوت وجلوت میں رہ کر ایصال ثوا ب کریں ، تاکہ ان کی روح وجسم کو سکون حاصل ہو، دوسرا یہ کہ انھوں نے اپنے عرصۂ حیات کو قیمتی بنا کر امت کو جو اثاثۂ علمی اوراخلاقی کردار عطا کیا ہے اسے مشعلِ راہ بنا کر ہم بھی اسلاف کے نقش قدم پر چلیں اور سعدی کی اس درد بھر ی صدا پر گوش بر آواز بن جائیں ۔ خیرے کن اے فلاں وغنیمت شمار عمر زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند تو آئیے!اسی جذبہ سے ہم قاضی صاحب کی کتابِ زندگی کامطالعہ کریں کہ وہ قاضی صاحب جنہوں نے صوبۂ بہارکے ضلع دربھنگہ کے جالہ نامی ایک دیہات میں ۱۹۳۶ء میں پیداہوکر،مولاناعبدالاحدومولانااسحاق نامی اساتذہ سے علم کا آغاز کیا اور اس کے بعدمدرسہ محمودالعلوم(دملہ)،مدرسہ امدادیہ(دربھنگہ)اوردارالعلوم مئوناتھ بھنجن ان مدارس میں ثانوی تعلیم حاصل کرکے مرحلۂ فضیلت کی تکمیل کے لیے ازہر ہند دارا لعلوم دیوبند میں تقریباً۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۵ء تک قیام رہا،بعدازاں ہندوستان کی عظیم شخصیت مولانامنت اللہ صاحب رحمانی ؒ کی نگاہ ِقلندرانہ نے آپ کواپنی آغوش میں لیا اور یہیں سے آپ نے دورِتدریس کاکامیاب آغازکیا،ابتداء سے لے کر حدیث شریف تک کے اسباق آپ سے متعلق رہے،۱۹۷۲ء تک آپ کی تدریسی مشغولیت کے بعد امت کی