قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کرتے،جہاں تک بیماری کا تعلق ہے تو ہم نے مادرِ علمی فلاحِ دارین ترکیسر کی سات سالہ زندگی میں آپ کو بیماری کی حالت میں بھی غیر حاضر نہیں پایا۔ حضرت مفتی صاحبؒ ایک طرف کامیاب مدرس تھے ،تو دوسری طرف ایک بامقصد مربی تھے ،تربیتی مزاج کی جھلکیاں کبھی کبھی دورانِ درس بھی نظر آتی تھیں ،بلکہ طلبۂ کرام کو اس کی طرف خصوصاً توجہ دلاتے تھے ،طلبہ کے رہن سہن اور چال ڈھال کی نگہداشت اور بار بار روک ٹوک فرماتے تھے ،حضرت مولانا وستانوی صاحب دامت برکاتہم اساتذۂ کرام کی میٹنگ (مجلس )میں آپ کی ایک خصوصیت بار بار دُہرایا کرتے تھے کہ حضرت مفتی صاحبؒ دورۂ حدیث میں پڑھنے والے طلبۂ کرام کو آخری سال میں اپنے اکابرین سے منسلک ہونے کی بے حد کوشش کرتے تھے ،اور بار بار آپ بیتی، تذکرۃالرشید ،تذکرۃ الخلیل ،نقش ِدوام وغیرہ کتابیں پڑھنے کی ترغیب فرماتے اور طلبہ میں بیداری کے لئے اکابرین کی زندگی کے حالات پر خاص طور سے روشنی ڈالا کرتے تھے اور اس کے علاوہ کسی چھوٹی سی بھی نسبت پر اکابرین دیوبند کا کوئی ایسا واقعہ سناتے تھے ، جس سے طلبۂ کرام ان سے مانوس ہوتے چلے جاتے،یہ ایک باکمال استاذ ہی کا وصف ہے کہ وہ دورانِ درس درسی تقریر کے ساتھ ساتھ طلبۂ کرام کی تربیت پر توجہ دیتا چلا جاتاہے۔ حضرت مفتی صاحب ؒ جہاں مدرس کی حیثیت سے کامیاب وکامران رہے ، وہیں مفتی کی حیثیت سے بھی آپ نے پر خلوص اور بے لوث خدمات انجام دیں ،آپ کے زمانہ میں فلاحِ دارین ترکیسر کا دارالافتاء ہر خاص وعام کیلئے مرکز توجہ تھا ، بسا اوقات مفتیانِ کرام سے کوئی تسامح ہوجاتا ،تو وہ لوگ حضرت مفتی صاحب ؒ سے رجوع فرماتے ، فتاویٰ نقل کرنے اور کروانے میں آپ پوری توجہ سے کا م لیتے تھے ،حضرت مفتی صاحب ؒ گجراتی زبان میں بڑی ادبی مہارت رکھتے تھے ،بل کہ بلامبالغہ