قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کیا کیا نشانات چھوڑ ے ؟اس لئے ایک سمجھ دار انسان کے لئے سیرتِ نبیؐ ،احوالِ صحابہؓ اور سوانحِ اولیا ؛ اس حیثیت سے مشعلِ راہ ہوتے ہیں کہ وہ علوم نبویہ کو عمل کے قالب میں ڈھال کر افرادِ امت کے سامنے پیش کر تے ہیں ۔ جانشینِ حضرت تھانویؒ،حضرت ہردوئی آج انہیں رحمۃ اللہ علیہ لکھنے پر قلم مجبور ہے،اصحابِ قلوب اورانفاسِ قدسیہ کے سلسلۃ الذہب کی وہ قیمتی کڑی ہیں ،جن کی ولادت۱۳۳۰ھ مطابق ۲۰؍ دسمبر کوشہر ’’ہر دوئی ‘‘میں ہوئی۔ سلسلۂ نسب شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؒ سے ملتا ہے اور سلسلۂ روحانی میں آپ کے والدماجدحضرت’’ محمود الحق‘‘صاحب قدس سرہ حضرت تھانوی ؒکے مجاز صحبت تھے۔ آپ وطناً ہردوئی،نسباً حقی ،علما ًمظاہری اور مشرباً تھانوی تھے۔ ابھی عمر عزیز کی آٹھ ہی بہاریں دیکھی تھیں کہ حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے اور ۱۳۵۵ھ میں ہندوستان کی عظیم با فیض دینی درس گاہ’’جامعہ مظاہرعلوم‘‘سے فنون متداولہ کی تکمیل فرمائی اور اپنے جبال العلم والعمل اساتذہ سے خوب خوب اکتساب فیض کیا اور بہت بہت دعائیں لیں ۔ زمانۂ طالب علمی ہی میں راہ سلوک طے کرنے کے لئے شاہ راہِ تھانوی ؒسے وابستہ ہوچکے تھے اور حضرت حکیم الامت تھانوی ؒکی نظرجوہرشناس نے نورِ فراست سے کم عمری ہی میں منور فرما کر بہ زمانۂ قیام ’’فتح پور ‘‘ ۱۳۶۱ھ میں اجازت ِ بیعت دے کر خلعت خلافت سے سرفرازفرمادیا،حضرت ہردوئی کوحضرت تھانویؒ کی کیمیااثرنظرنے ایسا بنا دیا کہ حضرت مرحوم ؒجہاں اکابرین کی نظروں کے تارے،وہیں ہم عصروں کے دل کے دلار ے اور اصاغرین کے حق میں بااصول معلم ورہنماتھے،بقولِ حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ ’’حضرت ابراراپنے وقت کے اسماعیل شہیدؒہیں ‘‘اوربقولِ حضرت مولاناعلی میاں ندویؒ