قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
عشاء کا درمیانی وقت ہے؛بل کہ عشاء کی اذان ہوا چاہتی ہے کہ یکایک صحن جامعہ میں فو ن کی بیل بجتی ہے اور اوائل شب کی یہ ظاہری تاریکی ،ایک معنوی اور روحانی تاریکی کا پیغا م لاتی ہے؛پوری برادری میں ہی نہیں ،بلکہ پورے عالمِ اسلام میں صف ِماتم بچھ جاتی ہے اورچہار دانگ ِعالم کا سارا ماحول سوگوار ہوجاتا ہے ؛مدرسہ عمربن خطابؓ کنج کھیڑا ‘‘ کے سکریٹری،جناب صالح بھائی ،رئیس جامعہ اکل کوا ،حضرت مولانا غلام محمد وستانوی حفظہ اللہ کو فون پرایک دل خراش اطلاع دیتے ہیں کہ برکت ہندوستان،سرمایۂ ملت اسلامیہ ، سرتاج اولیا،جیلانی ٔوقت،جانشین اشرفؒسراپابرّوصلاح،حضرت مولاناابرارالحق صا حب ؒہردوئی اس دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون یہ دنیا فانی ہے اور اس کی ہرشی ٔبھی فانی،باقی تو صرف خدا کی ذات ہے ’’کل من علیھافان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘(الرحمن۲۶/۲۷)جب سے دنیا قائم ہے ، تب سے لے کر اب تک آسمان نے نہ جانے کیسے کیسے واقعات کو دیکھا ہو گا اور کتنے مصائب و حادثات کا سامنا کیا ہوگا اور نہ معلوم اس فرش خاکی نے کتنے جبال العلم کو اپنے آغوش میں چھپالئے،کتنے اصحاب سلطنت،اصحاب جاہ ومرتبت کو نگل لئے اورکتنے ہی اصحابِ ثرو ت کو اپنے سینۂ گیتی میں دفن کر لئے ؛جن کی تاریخ طویل بھی ہے اور تلخ و شریں بھی ؎ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے لیکن اسلام کے مزاج اور انسان کے صحیح مذاق کی خاصیت یہ نہیں کہ کون کیسی صورت کا مالک تھا ؟کس منصب پر فائز تھا اور کتنی دولت رکھتا تھا بلکہ اسلام یہ دیکھتا ہے کہ جانے والا کس سیرت کا حامل تھا؟ اس نے کیسے اخلاق وکردار اپنائے ؟اور اپنے اخلا ق کے