قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
طالب علم نفحۃ الیمن کا امتحان دینے گیا تواس سے’’بہلول‘‘کے معنی پوچھ لیے اور اس کی خاموشی یاتامل پر فوراًچھ معانی ذکر کردیئے،کسی موقع پر کسی نے حضرت شیخ الہندکاتذکرہ کرتے ہوئے شیخ الہند سے تعبیرکیاتوبرجستہ فرمایاکہ وہ توشیخ العالم تھے۔ ہمارے برادرنسبی حضرت مفتی عبداللہ صاحب مظاہریؔاپنے ادارے جامعہ ہانسوٹ کے سلسلہ میں نام تجویز کے لیے پہنچے کہ میری تمناہے کہ ادارے کانام ایساہوکہ جس میں معنویت بھی ہواورمظاہرسے استبراک بھی نیزبانیان مظاہرکی تلمیح پرمشتمل ہو تو کچھ ہی دیرمیں فرمانے لگے کہ عبداللہ تیرے منشاء کے مطابق تومیرے دل میں ’’مظہرا لسعا دۃ‘‘ نام آتاہے،حضرت مولانا کواللہ تعالیٰ نے علم تعبیررؤیاسے خاصی مناسبت عطافرمائی تھی جس کی وجہ سے متعلقین مظاہرمیں سے کسی کو خواب کی تعبیردریافت کرنی ہوتی تواولین مرجع مظاہر میں موصوف کی ذات گرامی ہوتی۔ حضرت والامیں صفت استغناء قدرت نے کوٹ کوٹ کر ودیعت فرمایاتھا، رسو خ وتعلقات سے اولاتوواسطہ ہی کم رہالیکن جب ادارے کوضرورت محسوس ہوئی توآپ نے ادارے کے مالی استحکام کے لیے ممبئی ،کلکتہ ،گجرات وغیرہ کے اسفاربھی فرمائے لیکن احاطہ ٔمظاہرمیں بھی اوربیرون احاطہ بھی اپنی شان استغناء کو متأثرنہ کیا،گویاآں جناب کی زندگی اس شعرسے عبارت تھی ؎ تمام عمراسی احتیاط میں گذری کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو حضرت مرحوم کے علمی کمالات کوبام عروج پرپہونچانے کے لیے جن شخصیات کی پشت پناہی رہی ہے،ان میں سرفہرست جامعہ مظاہرکے سابق صدرمفتی اعظم حضر ت مفتی سعیداحمد صاحب اجراڑوی کی آغوش ِتربیت نیزحضرت مفتی مظفرحسین صا حب علیہ الرحمۃ کی برادرانہ شفقت و مہربانی کے علاوہ حضرت شیخ مولانا زکریا صاحب نوراللہ