قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
مولانا شاہ اطہر حسین ؒ کی رہی ،ان کی کتاب زندگی کا ایک ایک ورق نصیحت سے بھرپور اور سبق آموز ہے ،ان کا مرحلۂ تعلیم اگر سنگین ہے تو مرحلہ تعلم بھی رنگین ہے،ان کا مرحلہ ٔ معاش اگر قابل رشک ہے تو ان کا مرحلۂ استغناء بھی قابل رشک ہے،ان کی جلوت و خلو ت میں یکسانیت بھی اور سادگی بھی،وہ جلوت میں رہ کرخلوت کے مزے لوٹنے والو ں میں سے تھے ، مسنددرس پر بیٹھتے تو فن ِادب کے رمز شناس اور تحقیقات کی صحرا نوردی کرتے تو بال کی کھال نکال کررکھ دیتے۔ عربی ادیب ایسے نظم ونثرپر یکساں مہارت،قادرالکلام شاعر بھی اور نثرمیں قلم روانی اور جولانی بھی، مختصر یہ کہ حضرت مرحوم ایک باکمال مدرس اوربہترین مربی تھے ، فن تصوف کی تشریح کرنے والے صوفیاء کی زیارت توکی ہوگی لیکن تصوف کی چلتی پھرتی تصو یر حضرت والاکی ذات گرامی تھی،حضرت مرحوم کو دیکھنے والانووارد زیارت تودورسے کرسکتا تھا لیکن ملاقات ومصافحہ کی ہمت نہیں کرسکتاتھا،اس لیے نہیں کہ مرحوم جلالی تھے ، اس لیے نہیں کہ مرحوم کسی پر غضب ناک ہوتے یاخفا ہوتے،صرف اس لیے کہ تقویٰ و طہارت خداشناسی کے استحضار کے نتیجے میں من جانب اللہ یہ رعب جماہوا رہتاکہ معلوم نہیں کہ میری ملاقات پر کیااثرہو،کیااصلاحی جملہ نکل جائے ،یامجھ سے کیاتعبیرکی غلطی ہوجائے۔ جامعہ مظاہر علوم سہارن پور جہاں ایک طرف ،فن حدیث کی خدمت میں معرو ف ومشہورہے،وہیں دوسری طرف یہ بات بھی زبان زد خاص وعام ہے کہ وہاں فنونِ لطیفہ، علومِ عقلیہ او ر ادبیہ کے ماہرین بھی کچھ کم نہیں ، چناں چہ نحومیں علامہ صدیق جموی ( کشمیر) وعلامہ یامین رہے،وہاں منطق وفرائض میں مولاناوقارعلی صاحب مدظلہٗ جیسی شخصیت کا ڈنکا بج رہاتھا،وہیں حضرت مولانااسعداللہ صاحب رام پوری کے بعد ادبی لطائف ، عربی زبان کی وسعت معانی وغیرہ پرسب سے زیادہ نظر حضرت مرحوم کی تھی،ایک