قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
سالہ رشتہ رہا،افسوس!وہ مجھ سے روٹھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہائے!جن سہیلیوں اورہم جولیوں سے میراپرانامیل جول تھا وہ مجھے چھیڑتے ہوئے بے وفاکالقب دے رہی ہیں ، ارے !وہ میراچھوٹااورپیارا بھائی’’ریان‘‘مجھ سے پوچھنے لگاآپی!توکہاں جائے گی؟ ارے بیٹی!توتووالدین کی لخت جگرہے،کہیں تیرے آبگینے کوٹھیس نہ لگ جا ئے اس لیے ہم باوجودفراق وجدائیگی کے تصورسے محزون ہونے کے تیرے سامنے احساس تک نہیں ہونے دیتے،باقی ہماری تویہ حالت ہے کہ باوجودنیک،صالح،باکمال،باجما ل ، بامنال رشتہ کے،دل پارہ پارہ ،جذبات ریختہ ریختہ،آنکھیں نم دیدہ نم دیدہ رہتی ہیں ،کئی کئی راتیں ایسی گذریں جن میں تیرے والدین نے نیندکاسرمہ تک نہیں لگایااوررات بھرآنکھیں تارے گنتی رہیں ،صرف اس تصورمیں گم ہوکرکہ ارے بیٹی!کل تک تجھے ہزاروں ارمانوں کے ساتھ پالا،ہزاروں امیدوں کے سہارے بڑاکیا،لیکن آج تواپنا ایک گھرخیربادکرکے اپنے دوسرے گھرکوآبادکرنے جارہی ہے۔ بیٹی!دنیاکوخدانے رنگ برنگی زینتوں سے آراستہ کیاہے،بیٹی کاوجودزمانہ ٔجا ہلیت میں ایک جہالت میں مبتلاشخص کودامِ فریب میں لے کر حیوانیت سے نیچے لے آتاتھااوروہ اس قدر نیچے اترآتا تھاکہ اپنی جواں سال،جواں عمربیٹی کواپنے ہی ہاتھ سے گڈھاکھودکر موت کے گھاٹ اتاردیتاتھا۔(معاذاللہ)لیکن قربان جابیٹی !اپنے پیار ے اورعالم گیرمذہب اسلام پرجس نے بیٹی کوبیٹی سے ترقی کراکرایک بیوی ہونے کابل کہ شریک ِزندگی ہونے کاشرف بخشا،پھراس کے بعدایک خوش خصلت بہوسے ترقی دے کرنیک ماں بننے کاحق بھی اسے دیا۔