قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کاجائزہ، مگر اپنے جہاں سے بے خبر کاایک سراپامجسمہ،ابھی گھر کی دہلیزپر قدم رکھا ہی ہے کہ فون کی رنگ نے بجناشروع کیااورتیری دادی اماں نے رسیوراٹھایا،سامنے تیر ے بڑ ے اباہیں !ارے یہ کیا؟ دادی اماں خوشی کے آنسوچھلکارہی ہیں ،اپنی پوتی اورپوتے کی خوش قسمتی پر ناز کرتی ہوئی اور بیٹے کی حسن لیاقت، حسن انتخاب پر داد دیتی ہوئی اس دعا کے ساتھ فون کا سلسلہ منقطع کرتی ہیں کہ ’’ اللہ کرے یہ رشتہ بھائیوں اور خاندان میں ازدیادِ محبت کاذریعہ بنے‘‘تیراباپ ابھی اسی شش وپنج میں مبتلاہے کہ تیرے پھوپھا مو لا ناغلام محمد اورپھوپھی جوبرطانیہ کے لیے روانہ ہورہے ہیں ان کوکیسے اس سلسلہ میں مطلع کیا جائے ؟ سامنے سے فوراً دوسری رنگ ٹون آئی تیرے بڑے اباکے فون کی،کہ مولاناغلام صاحب سے میں خودرابطہ قائم کررہاہوں اوراس طرح تیرے بڑے اباکے مضبوط ذرائع مواصلا ت نے آن کی آن میں جہاں جہاں عزیزواقارب تھے سب کو اطلاع کردی،سب کی طرف سے مبارک بادآئی اورسب نے اس نسبت کونسب کی سعادت سے تعبیرکیا۔فللہ الحمد ان سب کے باوجودبیٹی!ہم تیرابھولاچہرہ دیکھ کرترس کھاجاتے ہیں ،تیرے سامنے کبھی شادی کا تذکرہ کرنے کونمک برزخم تصورکرتے ہیں اورکبھی تیرے فراق اور جدائیگی کے آنسوچھپانے کی کوشش کرتے ہیں ،کیوں ؟بیٹی!کہ کہیں تجھے یہ احساس نہ ہونے لگے کہ جس گھرمیں میں پلی بڑھی ،نشوونماپائی،نشیب وفرازدیکھے،زیروبم کاسامنا کیا،ہرچاہت ہرفرمائش ماں کے واسطے سے باپ کے ذریعہ پوری ہوتی نظر آئی،کیا؟ جسے میں کل تک اپناگھرسمجھتی تھی وہاں کے درودیوارآج مجھے اجنبیت بھری نگاہ سے کیوں دیکھ رہی ہے؟ہائے!کچن کے برتنوں سے برسوں انسیت رہی وہ آج مجھے ایک عارضی مہمان کیوں تصورکرتے ہیں ؟جس نعمت خانہ سے،الماری سے ،بیڈروم سے میراسولہ