قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کہ’’ بچے کو کھانا پیناچاہے کتنا ہی اچھا ملے، لیکن جب تک اسے اماں ،اباکی آغوش نہیں ملتی،وہ اندرہی اندرکڑھتاہے،اس لیے اب تواسے لے جانا‘‘۔بیٹی!ایک ہفتہ میں والد ین کے بغیر تیرے معصوم اور نازک وجودپر کیاگذری ہوگی،اس کااندازہ مشکل ہے،خیر ’’الخیرفیماوقع‘‘۔ میری پیاری بیٹی!پھر توشعور کی عمر کو پہنچتی ہے، کھیلتی ہوئی مدرسہ جاتی ہے، پارۂ عم یاد کرتی ہے، قرآن مقدس ناظرہ کی تکمیل پر شیرینی تقسیم کر کے بے حدخوش ہوتی ہے۔ پھر اسکول کی تعلیم کاانقطاع اور خیاطی کے لیے ایک نیک اور صالحہ آپا’’رقیہ خا لہ ‘‘ کے پاس تیراجانا،مسائل کی تعلیم لینااور دیکھتے ہی دیکھتے امورِخانہ داری میں اپنی ماں کا سہارا بننا اور تیری ماں کا سختی کے ساتھ پکانے میں خامیوں کی اصلاح کرنا اور تیرے باپ کا طرف داری کرنا،ماں کے ڈانٹنے پر باپ کا دلار دینا،یہ سب کچھ ایک گھرکے نظام کے تحت چل رہا تھاکہ یکایک ایک دن عصر کی نماز کے بعد متصلاتیرے بڑے ابا کا بڑے پن سے لبریز اور خلوص و محبت سے بھرپور فون آیاکہ بھائی!میں نے اپنی بیٹی ’’ریانہ‘‘ کو موسم حج میں حرم محترم میں غلاف پکڑ کربیٹے حافظ عبیداللہ کے لیے مانگاہے،بولو!تمہاری کیا رائے ہے؟تیراباپ اس وقت جذبات و خیالات کے بحر تلاطم میں غوطہ زن ہوکرصد نمنا ک آنکھوں سے یہ کہہ سکا (جس میں صرف سچائی تھی)’’ حضرت! اگر یہ رشتہ وپیغام کہیں اور سے آتاتوآپ ہی اس کے فیصل اور والی ہوتے،چناں چہ اس مسئلہ میں بھی زمامِ تحکیم آپ ہی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ خیر مدرسہ سے گھر تک میں کیسے پہنچا؟کیسے کیسے تصورات نے انگڑائی لیں ، آنکھ مچولی کھیلیں ؟ کہ کیا یہ حقیقت ہے یا عالم خواب کی کوئی کیفیت؟ بظاہر سارے جہاں