قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
میرا دل کہتا ہے کہ تو میرے حق میں ایک بیش بہا نعمت ثابت ہوئی۔ میری بیٹی! کبھی تیری والدہ تجھے لوریاں دے کر سلاتی تھیں اوراب تیری یادیں ہمیں لوریاں دیا کریں گی! ہم چشم تصور سے تیرے لڑکپن کی ادا کو دیکھا کریں گے کہ توآنگن میں کھیل رہی ہے،صحن میں مچل رہی ہے،ماں کی طرف لپک رہی ہے ، کبھی ’’رقیہ‘‘ پھوپھی کے گھر میں چلی جارہی ہے اور کبھی ’’کلثوم‘‘ پھوپھی کی آمد پر ان کی گردن سے لپٹ جارہی ہے، کبھی تیری ماں تیرے سرپر دستِ شفقت پھیر پھیر کر تجھے سلانے کی کوشش کر رہی ہے تو کبھی تیرے نہ سونے پر تیرا ظالم باپ تجھے زور سے ڈانٹ رہا ہے پھر تو مارے ڈر کے لپٹ کر سوجارہی ہے، میری بیٹی! یہ سب تیری محبت کی یادیں ہیں جو ہمیں برسوں رلائیں گی ؎ غیروں کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد اب کچھ بھی نہیں مجھ کو محبت کے سوا یاد اورتیرے بچپن کاایک واقعہ توایسا ہے کہ جب جب بھی یاد آتا ہے، ہمیں تڑپا کر رکھ جاتاہے،بیٹی!ابھی تونے دودھ چھوڑا ہی تھا،کچھ چلناسیکھاہی تھا،کہ تیری بڑی پھوپھی’’فاطمہ پھوپھی‘‘ نے محبت کے مارے یہ کہہ دیا کہ ’’ریانہ‘‘ کو میرے یہاں ایک ہفتہ چھوڑدو!مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ٹرک کے ذریعہ اکل کوا سے ’’انکلیشور‘‘ لایااور پھر بس کے ذریعہ ’’رویدرا‘‘ چھوڑا،ایک ہفتہ تو پھوپھی کے یہاں رہی،پھوپھامرحوم نے تجھے لاڈوپیار دیا(اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) ایک ہفتہ کے بعد تجھے انگوٹھا چوستے ہوئے ننھی آنکھوں سے ٹک ٹکی لگائے دیکھتے ہوئے تیرے پھوپھا ’’مولانااحمد لولات‘‘ نے محسوس کیا کہ تجھے ابا کاانتظار ہے تو انہوں نے کہا